کل شب یہ کہانی میں نے بھارت سے حال ہی میں شائع ہونے والی کتاب میں پڑھی۔ یہ سال 1972 تھا اور ملتان جیل میں بغاوت ہو چکی تھی ۔ کبھٹو حکومت کی وعدہ خلافیوں کے خلاف ایک سٹوڈنٹ لیڈر نیاز بھٹی جیل میں ہنگامے کرانے میں کامیاب رہا تھا۔
بھٹو نے وعدہ کیا تھا کہ اقتدار میں آتے ہی وہ تمام سیاسی کارکنوں کو رہا کر دے گا جنہیں جزل میں نے جیلوں میں ڈال رکھا تھا۔ بھٹو کو اقد ارسنجالے کئی ماہ گزر چکے تھے لیکن ابھی تک انہوں نے اپنا وعدہ پورا نہ کیا تھا۔ دھیرے
دھیرے جیل میں غصہ بڑھنے لگا ۔ جیل میں بھارتی قیدی بھی موجود تھے۔
ہنگاموں کی وجہ سے خوراک کا ذخیرہ ختم ہونے لگا ۔ جونہی یہ خبر باہرنکلی ، قیدیوں کے عزیز واقارب نے کھانا پہچانا شروع کر دیا۔ پاکستانی قیدیوں کو تو کھانا مل رہا تھا لیکن بھارتی قیدیوں کا کوئی پرسان حال نہ تھا ۔ ایک دن ایک بھارتی قیدی راجندر کار پاکستانی قیدیوں کے ساتھ مل کر راشن ڈپو پر حملہ آور ہوا۔
طالبعلم رہنما ناز بھٹی نے تمام قیدیوں کو اکٹھا کیا اور بھٹو کے خلاف ایک دھواں دھار تقریر کی ۔ بھٹو پر پاکستان توڑنے کا الزام لگایا اور بھارت میں قید نوے ہزار پاکستانی فوجیوں کی حالت زار کا زمہ دار بھی انہیں ٹھہرایا۔ اس تقریر نے ماحول کو گرما دیا اور حالات قابو سے باہر ہونے لگے۔ بھارتی قیدی ان حالات میں سب سے زیادہ خوف کا شکار تھے لہذا انہوں نے فیصلہ کیا اپنے اپنے سیل سے باہر نکلیں ۔ راجندر کماران پاکستانی قیدیوں سے ملا ہوا تھا جو جیل سے سرنگ کے ذریے فرار ہونے کی کوششوں میں مصروف تھے۔ بھارتی قیدیوں نے راجندر کمار کوع کرتے ہوئے کہا کہ یہ کام مت کرو، ملتان سے فرار ہو کر وہ بھی بھارت نہ سکیں گے۔
اس دوران نیاز بھٹی کی تقریروں میں تیزی آتی جارہی تھی ۔ حالات کو قابو میں لانے کے لیے کبھٹو نے اپنے ایک وزیر کو ملتان جیل بھیجا مگر مذاکرات ناکام رہے۔
وزیر کے جاتے ہیں سب کو پتہ چل گیا کہ اب ایکشن ہوگا امیج کے چھ بجے کے قریب اچانک ملتان جیل میں ہر طرف سے مشین گن چلنے کی آوازیں آنے لئیں ۔ رینجرز جیل میں داخل ہو چکے تھے۔ انہوں نے پہلے واچ ٹاور پر قبضہ کیا اور وہاں بیٹھے قیدیوں کو میں سے چالیس فٹ اونچی دیواروں سے نیچے پھینکنا شروع کر دیا۔ انہوں نے کافی دیر اندھا دھند فائرنگ جاری رکھی ۔ کئی قیدی مارے گئے ۔ اس کے بعد رینجرز نے بیرکس کا رخ کرلیا۔ نیاز بھٹی کمانڈر سے بات کرنے کے لیے آگے بڑھا تو اس نے اسے وہیں سب کے سامنے گولی مار دی۔
اس کے بعد اس کمانڈر نے بھارتی قیدیوں کی بیرک کی طرف بڑھنا شروع کیا اور وہ سب اپنی جانیں بچانے کے لیے دروازے بند کرنے دوڑے۔ رینجرز کی ایک بڑی تعداد بیرک کے سامنے کھڑی ہو چکی تھی ۔ انہوں نے بھارتی قیدیوں کو حکم دیا کہ وہ ایک ایک کر کے باہر آ جائیں ۔ سب بھارتی قیدی باہر نکل آئے۔ انہیں ایک قطار میں کھڑا کرنے کے بعد کمانڈر نے اپنے ساتھ موجودفو جیوں کو حکم دیا کہ ان سب کو بھون ڈالو اور ان کافروں کو یہیں ختم کر دو۔
سب بھارتی قیدیوں کا سانس رک گیا۔ چند ایک نے رونا بھی شروع کر دیا اور اپنے چہرے ہاتھوں میں چھپا لیے۔ قیامت کا لمحہ تھا۔ بھارتی قیدی کشوری عمل کے ذہن میں آخری تصویر جو بھی وہ اس کی روتی ہوئی ماں کا چہرہ تھا۔
گولیاں چنے ہی والی تھیں کہ بھارتی قیدیوں نے دیکھا کہ ملتان جیل کا جیلرش احسان غنی بھاگ کر ان سب کے سامنے آ کر کھڑا ہوگیا۔ بھارتی قیدیوں کو یوں لگا کہ ایک فرشته خدا نے ان کی جانیں بچانے کے لیے بھیج دیا تھا۔ شیخ احسان نے اپنی چھاتی پھل کر کمانڈر سے کہا کہ اگران بھارتیوں کو مارنا ہے تو پہلے اسے گولی مارنا پڑے گی ۔ اس نے کمانڈر کی گن کی پیروں کو پکڑ کر اپنے سینے پر رکھا اور کہا: یہ کام تم صرف میری لاش پر ہی کر سکتے ہو۔
کمانڈر بیسن کر غصے میں بولا کہ جیل نہیں اپنے ملک سے زیادہ یہ کا فرعزیز ہیں، جب ہم پاکستانی قیدیوں کو گولیاں مار رہے تھے تو اس وقت تم نے ہمیں نہیں روکا، اب کیوں؟ اس وقت تم کہاں تھے جب میں نے نماز بھٹی کو اس پستول کے ساتھ گولی ماری تھی۔
احسان ذرا سا بھی نہ گھبرایا اور بولا میں ابھی جیل پہنچا ہوں ورنہ نہیں وہ بھی نہ کرنے دیتا۔ جب میں اپنے دفتر واپس جاؤں گا تو حکومت کو رپورٹ کروں گا کہ تم نے یہاں کیسے قیدیوں کو کیا اور اب تمہیں کسی ایک قیدی کو بھی گولی نہیں مارنے دوں گا ۔ اس کے لیے تمہیں مجھے پہلے مارنا پڑے گا۔ اگرتم نے گولیاں چلانا بندہ کہیں تو میں اپنے سٹاف کو کہہ دوں گا کہ وہ جیل کا گیٹ کھول دیں تا کہ لوگ دیکھے سکیں کہ تم نے قتل عام کیا ہے۔ کمانڈ تمہیں علم ہے کہ بی بی کا نمائندہ بھی باہر موجود ہے اور ایک لمے میں بینر پوری دنیا میں پھیل جائے گئی جبکہ ہمارے نوے ہزار فوبی بھارت کی قید میں ہیں ۔ اگر تم نے ایک بھی بھارتی قیدی مارا تو ہمارے نوے ہزار فوجیوں کی زندگیاں خطرے میں پڑ جائیں گی اور میں تمہیں یہ کام نہیں کرنے دوں گا۔ یہ کافر ہی سہی لیکن ہمارے قیدی ہیں اور ایک سچے مسلمان کی حیثیت سے ان کی حفاظت میری ذمہ داری ہے۔ کمانڈراپنی گنش احسان غنی کے سینے پر تانے کھڑا تھا۔ ایک بہادر اور بجھدارجیلر اپنی جان پرکھیل جانے کو تیارتھا۔ کمانڈر نے اپنی گن نیچے کی اور بھارتی قیدیوں کی بیرک سے نکل گیا۔
ان 90 ہزار فوجیوں کو شاید علم نہ ہو کہ اگر اس رات جیلر نے مجھداری سے کام نہ لیا ہوتا تو بھارتی فوج ان کے ساتھ کیا حشر کرتی یہ سوچ کر بھی خوف محسوس ہوتا ہے ۔ ایسے گمنام ہیروز کو ہم جانتے ہیں نہ بھی انہیں کسی نے کوئی میڈل دیا ہوگا۔
رونگٹے کھڑے کردینے والی یہ داستان بھارتی جاسوس کشوری لعل نے لکھی ہے جو تمبر 1966 میں گرفتار ہوا تھا۔ اپنی رہائی کے چالیس برس بعد حال ہی میں اس کی کتاب My years in a Pakistani prison بھارت میں چھپی
ہے۔ کشوری لعل عرف امریک سنگھ نے شیخ احسان غنی کا شکریہ ادا کیا ہے۔ بیشکر بیش احسان غنی یا ان کے بچوں تک ضرور پہنچنا چاہیے کہ احسان غنی کا احسان آج بھی ایک ہندوستانی جاسوں کو یاد ہے ۔ نہیں معلوم کہ احسان غنی اب کہاں ہیں ۔ تاہم ان کے بچوں، پوتے پوتیوں اور نواسوں کو اپنے اس بزرگ پرفخر کرنا چاہیے کہ ایسے بہادر اور ذمہ دار افسرم ہوتے ہیں۔
اسلام آباد کی ڈھلتی ہوئی رات میں، میں نے شوری لعل کی لکھی گئی کتاب کو بند کیا اور مجھے ایک پیر کا بہت پہلے پڑھا فقرہ یاد آ گیا، پیرنیا عجیب ہے کہ مرنے والے کے ساتھ اس کی اچھائیاں دفن ہو جاتی ہیں اور اس کی برائیاں زندہ رہی ہیں ۔ تا ہم ہندوستان کے ایک بوڑھے جاسوں کو چالیس برس بعد بھی ملتان کا نیک دل اور بہادر جیلر اب تک یاد ہے۔

You can find here Ayaz Ameer, Ayaz Ameer latest Urdu Columns, amar jaleel columns, amar jaleel, amar jaleel latest columns, Haroon ur Rasheed Columns, Nusrat Javed Columns, Ajmal Niazi Urdu Columns, javed chaudhry, Javed Chaudhry Columns, irshad bhatti, sohail warraich, Sohail Warraich, Sohail Warraich  Columns, Ayaz Ameer Urdu Columns Today, Ayaz Ameer Columns, Ayaz Ameer,rauf klasra, rauf klasra columns, jang columns, hassan nisar, hassan nisar columns, orya maqbool jan columns, orya maqbool jan, Mazhar Barlas Urdu Columns Today,  Mazhar Barlas Latest Columns etc.