2018

راولپنڈی (نیوز ڈیسک) تحریک لبیک کے خادم حسین رضوی اور دیگر اہم رہنماؤں کی گرفتاریوں کے بعد ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل آصف غفور نے اپنے آفیشل اکاؤنٹ سے دو پوسٹس کی ہیں، ڈی جی آئی ایس پی آر نے اپنے ایک ٹویٹ میں قرآنی آیت کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ’’اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ زمین میں فساد نہ کرو تو جواب دیتے ہیں کہ ہم تو صرف اصلاح کرنے والے ہیں۔‘‘ اپنے دوسرے ٹویٹ میں انہوں نے کہا کہ ’’پاکستان ایک مسلم ریاست ہے اور کوئی مسلمان ختم نبوتؐ پر سمجھوتہ نہیں کر سکتا، اس ٹویٹ میں میجر جنرل آصف غفور نے عقیدہ ختم نبوت کے حوالے سے اپنا اور ہر مسلمان کا موقف واضح کر دیا۔ واضح رہے کہ تحریک لبیک پاکستان(ٹی ایل پی) کے سربراہ خادم حسین رضوی کو قانون نافذ کرنے والے اداروں نے حراست میں لئے جانے کی اطلاعات ملی ہیں جبکہ پنجاب بھر سے ٹی ایل پی کے سینکڑوں رہنماؤں و کارکنوں کو کریک ڈاؤن کے دوران گرفتار کرلیاگیاہے ۔ نجی ٹی وی کے مطابق خادم حسین رضوی کے اہلخانہ نے ٹی ایل پی سربراہ کو حراست میں لیے جانے کی تصدیق کی۔خادم حسین رضوی کے اہلخانہ کے ایک رکن نے نجی نیوز چینل کو بتایا کہ 'انہیں لاہور میں ان کے حجرے سے گرفتار کیا گیا۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق پولیس کی نفری کو علامہ خادم رضوی کی گرفتاری پر شدید مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا ، پولیس نے مزاحمت پر مسجد رحمت اللعالمین پر شیلنگ کردی ، رپورٹس کے مطابق شدید شیلنگ کے بعد پولیس علامہ خادم حسین رضوی کو گرفتار کرنے میں کامیاب ہوگئی تاہم اپنے قائد کی گرفتاری کے باجودتحریک لبیک پاکستان نے اعلان کیاہے کہ25 نومبرکو لیاقت باغ راولپنڈی کا پروگرام ہر حال میں ہوگاتمام کارکنان اپنے شہروں میں دھرنے جاری رکھیں ۔دوسری جانب پنجاب کے وزیر اطلاعات اور قانون نے رابطہ کرنے پر کہا کہ انہیں خادم حسین رضوی کی گرفتاری سے متعلق کچھ علم نہیں۔ ذرائع کے مطابق پنجاب بھر میں تحریک لبیک پاکستان کے رہنماؤں اور کارکنا ن کے خلاف کریک ڈاؤ ن کیاگیا ۔ ادھرراولپنڈی پولیس نے تحریک لبیک پاکستان کے 24سرکردہ رہنماؤں و کارکنوں کو حراست میں لے لیا ہے۔ تمام افراد کو 16 ایم پی او کے تحت حراست میں لیا ہے ۔ پولیس ذرائع کے مطابق تحریک لبیک کے کارکنوں کو راتوں رات جیل منتقل کردیاگیا ہے ۔ملتان پولیس نے تحریک لبیک یا رسول اللہ کے رہنماوں اور کارکنوں کے خلاف کریک ڈاون کیا جس میں رات گئے 13 رہنماؤں کو گرفتار کر لیا گیا شجاع آباد سے حسیب انور اظہری، قاری صدیق ، پی پی 214 سے امیدوار ملک ظفر اقبال ، ملتان شہر سے آصف بشیر اور حافظ محمد عابد ، نوید احمد ، ملتان شہر سے اسامہ، صوفی محمد حنیف ، محمد بلال ، جلالپور پیر والہ سے مفتی اعجاز احمد، شاکر اسلم، محمد یوسف اور عطار ساقی کو گرفتارکرلیاگیا ۔ادھربھکر میں تحریک لبیک کے کارکنان کے گھروں پر چھاپے مارے گئے تاہم تحریک لبیک کے کارکنان روپوش پولیس لواحقین کو حراساں کرنے میں مصرف رہی ، تحریک لبیک کے کارکن مفتی محمد سرور کی روڈی سے گرفتاری کی اطلاع نامعلوم مقام پرمنتقل کردیاگیا ،پولیس کی سر توڑ کوشش رات گئے تک زیادہ گرفتاریاں عمل میں نہ آسکیں ۔سیالکوٹ میں ضلعی امیر محمد رفیق سمیت 23 کارکن ضلع بھر سے گرفتارکر لئے گئے ۔گوجرانوالہ کے ریجن بھر کے مختلف اضلاح تحریک لبیک یارسول کے کارکنان کے خلاف کریک ڈاون شروع ہوگیا ، پولیس نے سیالکوٹ ،ناروال،منڈی بہاوالدین،حافظ آباد،گجرات سمیت مختلف علاقوں سے تحریک لبیک کے150 سے زائد کارکنان گرفتار کرلیے ۔ذرائع کے مطابق صرف ان لوگوں کو گرفتار کیا جارہا ہے جنہوں نے آسیہ کیس فیصلے کے ردعمل میں جی ڑوڈ بلاک کیا تھا پولیس کو ریجن بھر سے 12 سو افراد کو گرفتار کرنے کا ٹارگٹ ہے۔پولیس کے مطابق دھرنے دینے والوں کے خلاف متعدد مقدمات درج کیے گئے تھے ریجن بھر سے مقدمات میں مطلوب تحریک لبیک کے کارکنان کو گرفتار کیا جارہا ہے ۔تحریک لبیک نے کارکنوں اور رہنماؤں کی گرفتاری کے خلاف دھرنوں اور مظاہروں کا اعلان کر دیا اور کہا کہ وہ وفاقی دارالحکومت میں راولپنڈی اور اسلام آباد کو ملانے والے انٹر چینچ فیض آباد کو پہلے کی طرح بند کرکے دھرنا دے دینگے ۔جب کہ ٹی ایل پی کے رہنماؤں اور کارکنان کی گرفتاری کے بعد کسی بھی ممکنہ ردعمل سے نمٹنے کے لئے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد ، صوبائی دارالحکومت لاہور اور دیگر شہروں میں بعض مقامات پر کینٹینرز پہنچا دیئے گئے ۔



آرکائیوڈی انڈیا القصر کے مرکزی دروازے کے سامنے ہے‘ سپین نے سولہویں صدی کے آغاز میں ہندوستان میں اپنی پہلی کالونی بنائی اورتاجر تجارتی سامان لے کر انڈیا جانے لگے‘ بادشاہ نے جہازوں اور جہازرانوں کا ریکارڈ رکھنے کےلئے سیویا میں کمپلیکس بنا دیا‘ یہ شروع میں انڈین کاسا کہلاتا تھا‘امریکا سے تجارت شروع ہوئی تو امریکی ریکارڈ بھی یہیں رکھا جانے لگا‘ اٹھارہویں صدی میںتجارت ختم ہو گئی تو حکومت نے اس عمارت کو آرکائیو ڈی انڈیا کا نام دے دیا‘

یہ دنیا کے چند بڑے آرکائیوز میں شمار ہوتی ہے‘ اس میں پانچ سو سال کے دوران امریکا اور انڈیا جانے والے لوگوں‘ تجارتی سامان‘ آمدنی‘ اخراجات اور تجارتی جہازوں کا ڈیٹا ہے‘ یہ ڈیٹا کتنا زیادہ ہے آپ اس کا اندازہ الماریوں سے لگا

لیجئے‘ گائیڈ نے بتایا اگر آرکائیو ڈی انڈیا کی تمام الماریاں قطار میں کھڑی کر دی جائیں تو یہ نو کلو میٹر تک پھیل جائیں گی‘ یہ کلونیل طرز کی سپینش عمارت ہے اور یہ دل میں کھب جاتی ہے‘ سیویا کا جدید محل آرکائیو ڈی انڈیا سے تھوڑے سے فاصلے پر واقع ہے‘یہ محل 1929ءکی نمائش کےلئے بنوایا گیا تھا‘ یہ سرخ اینٹوں کی سرخ عمارت ہے اور یہ دائیں سے بائیں دور تک پھیلی ہے‘ سپین کے پچاس صوبے ہیں‘ محل میں بھی پچاس کمرے ہیں اور ہر کمرہ ایک صوبے سے منسوب ہے‘ ملک کے چار حصے ہیں چنانچہ محل میں مصنوعی نہر بنا کر اس پر چار پل بنا دیئے گئے‘ پورے محل کے فیس پر نیلی ٹائلیں اور سنگ مر مر کے چھوٹے ستون ہیں‘ یہ مورش کلچر اوراسلامی تہذیب کی نشانی ہیں‘ عمارت مشہور آرکی ٹیکٹ اوسوریو نے ڈیزائن کی‘اوسوریوکا مجسمہ محل کے سامنے ایستادہ ہے لیکن اس شاندار ٹریبوٹ کے باوجود اوسوریوکی زندگی کا آخری حصہ المیے میں گزرا‘ بادشاہ یہ محل جلد سے جلد مکمل دیکھنا چاہتا تھا لیکن آرکی ٹیکٹ اپنے ڈیزائن پر کمپرومائز کرنے کےلئے تیار نہیں تھا‘ طاقت اور پروفیشنل ازم کا مقابلہ ہوا اور طاقت جیت گئی‘ بادشاہ نے کانٹریکٹ منسوخ کر دیا‘
آرکی ٹیکٹ اپنی پوری زندگی کی کمائی محل پر لگا چکا تھا‘ کمائی ایک دن میں ڈوب گئی اور آرکی ٹیکٹ کسمپرسی کے عالم میںانتقال کر گیا لیکن اس کا ڈیزائن آج بھی سپین کو اربوں روپے کما کر دے رہا ہے‘ محل کے صحن میں برآمدے کے ساتھ ساتھ سپین کی تاریخ کے اہم واقعات کے موزیک ہیں‘ یہ باریک پتھروں کی پینٹنگز ہیں‘ میں سقوط غرناطہ اور کولمبس کی روانگی کے موزیک پر رک گیا‘ غرناطہ کے بوتھ میں ابوعبداللہ محمد الحمرا کی چابی فرڈیننڈ کے حوالے کر رہا تھا اور ملکہ ازابیلا مسکرا رہی تھی‘

میں نے آہ بھری اور آگے بڑھ گیا جبکہ کولمبس کے بوتھ میں کولمبس جہازوں کو روانگی کا حکم دے رہا تھا‘ محل کی بغل میں چند سو میٹر کے فاصلے پر دنیا کی سگریٹ کی پہلی فیکٹری تھی‘ یہ بھی ایک وسیع عمارت ہے‘ تمباکو‘ مکئی اور آلو امریکا سے یورپ آئے تھے‘ دنیا 1500ءتک ان کی شکل اور ذائقے سے نابلد تھی‘ ریڈانڈین تمباکو کے پتوں کا خشک چورا تمباکو کے پتے میں لپیٹ کر سلگاتے تھے اور اس کے کش لیتے تھے‘ یہ لوگ اسے سگار کہتے تھے‘



کولمبس امریکا سے ہزاروں سگار لے کر آیا‘ سگار سپینش اشرافیہ کےلئے نئی چیز تھے چنانچہ یہ دھڑا دھڑبکنے لگے‘ امراءسگار پیتے تھے اور اس کا آخری حصہ گلی میں پھینک دیتے تھے‘ غریب لوگ وہ حصہ اٹھا کر کھولتے تھے‘ سگار کا تمباکو کاغذ میں لپیٹتے تھے اور سلگا کر پینا شروع کر دیتے تھے‘ یہ بیڑی کہلاتی تھی‘ بیڑی کو ہسپانوی زبان میں سگریٹی یعنی غریب آدمی کا سگار کہا جانے لگا‘ تاجروں نے اس ٹرینڈ کو کیش کرانے کا فیصلہ کیا‘ وہ تمباکو امپورٹ کرنے لگے اورعام لوگ یہ تمباکو کاغذ میں لپیٹ کر پینے لگے‘

یہ ٹرینڈ 1750ءمیں سگریٹ فیکٹری میں تبدیل ہو گیا‘ سیویا میں پہلی سگریٹ فیکٹری بنی‘ بارہ سو خواتین بھرتی کی گئیں اور یہ ہاتھ سے سگریٹ بنانے لگیں‘ فیکٹری مالکان نے اربوں روپے کمائے‘ یہ فیکٹری 1950ءتک چلتی رہی‘ بند ہوئی تو حکومت نے اس میں آرٹ‘ کلچر اور زبان کی یونیورسٹی بنا دی‘ میں عمارت کے سامنے کھڑا تھا‘ عمارت کے سروں پر چرچ اور جیل تھی‘ چرچ میں کارکن خواتین عبادت کرتی تھیں جبکہ جیل میں سگریٹ چرانے والی خواتین بند کر دی جاتی تھیں‘ فیکٹری مالکان نے چوری سے بچنے کےلئے عمارت کے گرد خندق کھود رکھی تھی‘ وہ خندق آج تک موجود ہے۔

سیویا کا کیتھڈرل شہر کی اہم ترین عمارت ہے‘ یہ عمارت ماضی میں مسجد ہوتی تھی‘ عیسائیوں نے اشبیلیہ کے زوال کے بعد مسجد شہید کر دی تاہم مسجد کا مینار‘ صحن‘ دیوار کا ایک حصہ‘ مین گیٹ اور برآمدہ بچ گیا‘ یہ پانچوں آج بھی وہاں موجود ہیں‘یہ چرچ دنیا کا تیسرا بڑا کیتھڈرل ہونے کے باوجود شہید مسجد کا مقابلہ نہیں کر پا رہا‘ مسجد کا مینار پوری دنیا میں سیویا کا شناختی نشان ہے‘ آپ جب اور جہاں سیویا ٹائپ کریں گے اشبیلیہ کی شہید مسجد کا مینار سامنے آ جائے گا‘

مراکش کے مسلمان مسجد کےلئے چورس مینار بناتے ہیں‘ مینار پچاس بائی پچاس فٹ کا ایک کمرہ ہوتا ہے اور یہ کمرہ منزل بہ منزل اوپر اٹھتا چلا جاتا ہے‘ انتہائی بلندی پر پہنچ کر مینار کی چھت ڈال دی جاتی ہے اور چھت پر نسبتاً چھوٹا نوک دار مینار بنا یا جاتا ہے‘ مینار سازی کا یہ فن مراکش سے اندلس آیا‘ اس میں مقامی معماروں نے کھڑکیاں‘ جھروکے اور جالیاں بنائیں اور یوں یہ اصل سے زیادہ خوبصورت ہو گیا‘ عیسائی فاتحین نے 1401ءمیں مسجد گرانا شروع کی اور یہ لوگ جب مینار تک پہنچے تو مینار کی خوبصورتی اور کروفر نے ان کے بازو شل کر دیئے‘ مینار بچ گیا اور یہ آج سپین میں اسلام کے سنہری دور کا نقیب بن کر کھڑا ہے‘

آپ اگر کیتھڈرل کے مرکزی دروازے سے اندر داخل ہوں تو آپ مسجد کے صحن میں آ جاتے ہیں‘ صحن میں آج بھی مالٹے کے درخت‘ فوارہ اور گہری سبز بیلیں ماضی اور حال کی گانٹھ بن کر موجود ہیں‘ بائیں جانب کیتھڈرل کے ہال کے دروازے سے پہلے مسجد کا برآمدہ بھی موجود ہے اور یہ برآمدہ اپنے منہ سے بول رہا ہے آپ نے جس دن مجھے ہٹانے کی کوشش کی‘ آپ کا سارا چرچ گر جائے گا‘ برآمدہ دراصل چرچ کی بنیاد ہے‘ برآمدہ ہٹانے سے چرچ کی عمارت واقعی قائم نہیں رہ سکے گی چنانچہ شہید مسجد کی یہ آخری نشانیاں کیتھڈرل کےلئے چیلنج بن کر کھڑی ہیں‘ کیتھڈرل کا آلٹر (قربان گاہ) دنیا کا سب سے بڑا آلٹر ہے‘

حضرت عیسیٰ ؑکی پوری زندگی مجسموں کی شکل میں آلٹر میں موجود ہے اور یہ تمام مجسمے سونے کے ہیں‘ میں نے پوری دنیا میں کسی جگہ اتنا سونا نہیں دیکھا لیکن یہ سارا سونا اور یہ ساری دلفریبی شہید مسجد کے ایک مینار کا مقابلہ نہیں کر پاتی‘ کیتھڈرل آٹھ سو سال گزرنے کے باوجود سیویا کا شناختی نشان نہ بن سکا‘ شہر کا شناختی نشان آج بھی مسجد کا مینار ہے‘ کیتھڈرل کا مین گیٹ بھی آٹھ سو سال سے قائم ہے‘ یہ کبھی مسجد کا مرکزی دروازہ ہوتا تھا‘ یہ دروازہ بھی قائم ہے اور اس پر کندہ آیات بھی‘ بے شک اللہ کے نام کو کوئی طاقت نہیں مٹا سکتی۔

کولمبس کی قبر سیویا کے کیتھڈرل میں ہے‘ کرسٹوفر کولمبس ایک حیران کن کردار تھا‘ وہ 1451ءمیں اٹلی کے شہر جنوا میں پیدا ہوا‘ 19 سال کی عمر میں مہم جوئی شروع کی‘ دھکے کھاتا ہوا پرتگال پہنچا‘ شادی کی‘ بیٹا ڈیگو کولمبس پیدا ہوا‘ بیوی کا انتقال ہوا اور وہ بیٹے کو لے کر سیویا آ گیا‘ ہندوستان کا قریب ترین روٹ دریافت کیا اور فنانسنگ کےلئے بادشاہوںکے پیچھے بھاگنے لگا‘ وہ آسٹریا‘ پرتگال اور سیویا کے بادشاہوں سے ملا لیکن کسی نے اس فضول کام میں دلچسپی نہ لی‘

وہ تھک ہار کر سیویا میں بیٹھ گیاتاہم وہ ملکہ ازابیلا کو قائل کرنے میں کامیاب ہو گیا‘ ملکہ نے اس سے وعدہ کر لیا اگر وہ غرناطہ فتح کرنے میں کامیاب ہو گئی تو وہ اس کے منصوبے کو فنانس کر دے گی‘ وہ فنڈنگ کے لالچ میں عیسائیوں کے لشکر میں شامل ہو گیا‘ قسمت نے یاوری کی اور غرناطہ فتح ہو گیا ‘ وہ تین جہازوں سانتا ماریا‘ نینا اور پنٹا پر87لوگ لے کرتین اگست 1492کو سیویا سے نکلا‘دریا وادی الکبیر سے ہوتا ہوااٹلانٹک اوشن میں اترا اور 36 دن بعد بہاماس پہنچ گیا‘

یہ ایک بہت بڑا بریک تھرو تھا‘ وہ 15 مارچ 1493 کو واپس لوٹ آیا‘ 25ستمبر1493ءکو دوسری مرتبہ امریکا گیا‘ اس نے اس بار ڈومنیکا اور کیوبا دریافت کر لیا‘ یہ کامیابی سونے کی کان ثابت ہوئی اور ہسپانوی تاجر دھڑا دھڑ امریکا جانے لگے‘ کولمبس‘ تاجر اور سیویا کا شاہی خاندان نئی دریافت کو انڈیا کا قریب ترین راستہ سمجھ رہے تھے‘ کولمبس پوری زندگی امریکا کو انڈیا‘ ڈومنیکا کو چین اور کیوبا کو جاپان سمجھتا رہا‘ وہ شاندار جہازران لیکن ناکام ترین ایڈمنسٹریٹر تھا‘

وہ اپنی حماقتوں کی وجہ سے اپنے لوگوں کے ہاتھوں گرفتار تک ہو گیا‘ ملکہ ازابیلا نے فوج بھجوا کر اس کی جان بچا لی‘ حکومت نے اس کے سفر پر بھی پابندی لگا دی‘ وہ شدید ذہنی خلجان کا شکار ہوا اور 1506ءمیں والا ڈولیڈشہر میں انتقال کر گیا‘ اس کا بیٹا ڈیگو اس کی لاش سیویا لے کر آیا اور اسے شہر کے باہر دفن کر دیا‘ ڈیگو کی وفات کے بعد اس کی بیوی ماریا اپنے خاوند اور سسرکولمبس کی لاش ڈومنیکاساتھ لے گئی اور انہیں ڈومنیکا میں سانتو ڈومینگوکیتھڈرل میں دفن کر دیا‘

کولمبس اڑھائی سو سال ڈومنیکا میں دفن رہا‘ 1795ءمیں ڈومنیکا میں حالات خراب ہو گئے‘ کیوبا اس وقت سپینش کالونی تھا‘ حکومت نے اس کی لاش نکالی اور کولمبس کو ہوانا میں دفن کر دیا‘ 1898ءمیں جب کیوبا کے حالات بھی خراب ہو گئے تو کولمبس کی لاش ہوانا سے سیویا لاکر کیتھڈرل میں دفن کر دی گئی‘ کولمبس کا دوسرابیٹا ہرنانڈو بھی کیتھڈرل میں دفن ہے۔1877ءمیں سانتو ڈومینگو کیتھڈرل میں کھدائی کے دوران ایک باکس دریافت ہوا تھا جس کے اوپر کرسٹوفرکولمبس کا نام لکھا تھا اور اس کے اندر 13 بڑی اور 28 چھوٹی ہڈیاں تھیں‘

کھدائی کرنے والوں نے دعویٰ کیا کولمبس کی سپین(سیویا) لے جائی جانے والی باقیات اصل نہیں ہیں‘یہ بحث 125سال چلتی رہی‘ یہ مسٹری حل کرنے کےلئے2002ءمیں سانتوڈومینگوکیتھڈرل اور سیویاکیتھڈرل میں موجود دونوں قبروں کی کھدائی کی گئی‘ باقیات کا ڈی این اے کیا گیااور ثابت ہوگیا سیویا کیتھڈرل کی باقیات ہی اصل میں کرسٹوفرکولمبس کی باقیات ہیں‘ کولمبس واقعی سیویا کیتھڈرل میں دفن ہے لیکن لاش کی بار بار کی نقل مقانی سے کولمبس کی باقیات صرف ڈیڑھ سو گرام بچی تھیں اور میں اس وقت ان باقیات کے سامنے کھڑا تھا۔


اور میں پھر بالآخر سیویا پہنچ گیا اور یوں رومیوں کا ہسپالس‘ مسلمانوں کا اشبیلیہ اور ہسپانیوں کا سیویا میرے سامنے تھا۔مورخین1500ءسے 2000ءتک پانچ سو سال کی تاریخ کو دنیا کا جدید ترین دور کہتے ہیں اور سیویا  اس دور کا نقطہ آغاز تھا‘ امریکا اس شہر سے دریافت ہوا ‘ سگریٹ‘ سگار اور بیڑی نے اس شہر میں جنم لیا‘ مکئی‘ آلو اور چاکلیٹ اس شہر سے جدید دنیا میں داخل ہوئے ‘ افریقہ کے سیاہ فام غلام پہلی مرتبہ اس شہر سے امریکا پہنچائے گئے ‘ کافی‘ گھوڑے اور گنا اس شہر سے لاطینی امریکا کا حصے بنے.

یہ وہ شہر تھا جس نے پوری دنیا میں آتشک اور سوزاک جیسی جنسی بیماریاں پھیلائیں اور یہ وہ شہر تھا جو اندلس میں مسلمانوں کے زوال کی پہلی اینٹ بنا غرض آپ جدید دنیا کو جس زاویئے‘ جس اینگل سے بھی دیکھیںگے سیویا آپ کو درمیان میں نظر آئے گا اور میں دس نومبر 2018ءکو اس عظیم سیویا پہنچ گیا‘ کرسٹوفر کولمبس‘ ابن بطوطہ اور ابن خلدون کے سیویا میں۔سیویا کا پہلا حوالہ یونان کی رزمیہ داستان ہیلن آف ٹرائے میں ملتا ہے‘ داستان کا مرکزی کردار ٹروجن ہسپالس (سیویا) میں پیدا ہوا تھا‘ دوسرا اہم حوالہ مورش مسلمان ہیں‘ طارق بن زیاد کے قدموں نے 711ءمیں سپین کی سرزمین کو چھوا‘ وہ بربر غلام زادہ سپین میں جس جگہ اترا وہاں طریفہ کے نام سے شہر آباد ہوا‘ یہ شہر آج بھی 13 سو سال سے قائم ہے اور یہ سپین اور مراکش کے درمیان اہم بندرگاہ ہے‘ مراکش کا شہر طنجہ (تانجیر) طریفہ سے صرف بیس منٹ کے آبی سفر کے فاصلے پر واقع ہے‘ طریفہ اور طنجہ کے درمیان ہر گھنٹے بعد فیری چلتی ہے‘ یہ فیری دو تہذیبوں کے ساتھ ساتھ یورپ اور افریقہ دو براعظموں کے درمیان رابطہ بھی ہے‘ بنو امیہ کے زمانے میں موسیٰ بن نصیر شمالی افریقہ کے کمانڈر اور گورنر تھے‘ طارق بن زیاد ان کا غلام تھا‘ طارق بن زیاد نے 711ءمیں جبل الطارق (جبرالٹر) فتح کر لیا اور وہ سپین کے اہم ترین شہروں کے طرف بڑھنے لگا ‘ موسیٰ بن نصیر کا صاحبزادہ عبدالعزیز بھی طریفہ میں اترا اور وہ ہسپالس کی طرف بڑھنے لگا‘ عبدالعزیز بن موسیٰ نے 712ءمیں ہسپالس فتح کیا اور شہر کا نام تبدیل کر کے اشبیلیہ رکھ دیا‘
یہ شہر پھر 23 نومبر 1248ءعیسائیوں کے ہاتھوں ختم ہونے تک اشبیلیہ ہی رہا‘ اشبیلیہ کی فتح کے دو سو سال بعد 2 جنوری 1492ءکو مسلمانوں کی آخری ریاست غرناطہ بھی ہمارے ہاتھوں سے نکل گئی‘ آخری مسلمان فرمانروا ابو عبداللہ محمد اپنے 1130 لوگوں کے ساتھ مراکش پہنچا‘ فیض گیا اور یوں سپین میں اسلامی ریاست کا پرچم ہمیشہ ہمیشہ کےلئے سرنگوں ہو گیا‘ سیویا کا تیسرا حوالہ کرسٹوفر کولمبس ہے‘ وہ سقوط غرناطہ کے وقت عیسائی بادشاہ فرڈیننڈ اور ملکہ ازابیلا کے ساتھ کھڑا تھا‘ کولمبس ہندوستان کا نیا راستہ تلاش کرنا چاہتا تھا‘ وہ فنڈنگ کےلئے یورپ کے تین بادشاہوں کے پاس گیا مگر انکار ہو گیا‘

وہ آخر میں غرناطہ کے اسلامی سقوط پر نظریں جما کر کھڑا ہو گیا‘ جوں ہی الحمرا سے اسلامی پرچم اتارا گیا‘ وہ آگے بڑھا‘ ملکہ ازابیلا کا ہاتھ چوما‘ مبارک باد دی اور فنڈنگ کی درخواست کر دی‘ ملکہ اس وقت خوشی کی انتہا کو چھو رہی تھی‘ اس نے کھڑے کھڑے کولمبس کا منہ موتیوں سے بھر دیا یوں کولمبس تین اگست 1492ءکو سیویا سے روانہ ہوا اور ہندوستان کا نیا راستہ تلاش کرتے کرتے دنیا کو نئی دنیا سے متعارف کرا گیا اور اس کے بعد پوری دنیا کا نقشہ بدل گیا‘ دنیا صرف دنیا نہ رہی حیران کن دنیا بن گئی۔



میں یکم نومبر کو روانہ ہوا‘ کینیڈا میری پہلی منزل تھی‘ میں ٹورنٹو اور کیلگری میں نو دن گزار کر دس نومبر کو سپین کے شہر مالگا اترا‘ یہ شہر مسلمانوں کے اندلسی دور میں مالقا کہلاتا تھا‘ عیسائی فوجوں نے 1487ءمیں مالقا کے امیر کو شکست دی اور پھر اس کے بعد پورا اندلس پکے ہوئے سیب کی طرح عیسائیوں کو گود میں آ گرا‘ میرے دوست اور بھائی سہیل مقصود مالگا ائیرپورٹ کے باہر میرا انتظار کر رہے تھے‘ سہیل مقصود ایک سادہ‘ مخلص اور گرم جوش انسان ہیں‘

غرناطہ میں کیش اینڈ کیری کے مالک ہیں اور انتہائی دلچسپ مگر غیرسیاسی دوست ہیں‘ ہم مالگا سے سیویا روانہ ہو گئے‘ ہائی وے کے دونوں طرف زیتون کے باغ تھے‘ اوپر جنوبی سپین کا نیلا آسمان تنا ہوا تھا اور نیچے ہم ڈرائیو کر رہے تھے‘ سیویا مالگا سے ساڑھے تین گھنٹے کی ڈرائیو پر واقع ہے‘ شہر کی پانچ سو سال کی جدید تاریخ تین حصوں میں تقسیم ہے‘ امریکا کی دریافت کا دور‘ یہ دور 1500ءسے ساڑھے 1800ءتک محیط ہے‘ سیویاان ساڑھے تین سو سال میں دنیا کا امیر ترین شہر اور سپین رئیس ترین ملک بن گیا‘ کارلو فائیو(چارلس فائیو)1516ءمیں سپین کا بادشاہ بنا‘

یہ دنیا کا پہلا بادشاہ تھا جس کی سلطنت میں سورج نہیں ڈوبتا تھا‘ یہ تھائی لینڈ‘ ایک چوتھائی ہندوستان‘ آدھے یورپ اور پورے امریکا کا مالک تھا چنانچہ سورج چل چل کر اور جل جل کر تھک جاتا تھا لیکن کارلو فائیو کی سلطنت ختم نہیں ہوتی تھی مگر پھر بحیرہ ہند‘ یورپ اور امریکا کے زیادہ تر ملک سپین کے ہاتھ سے نکل گئے‘ امریکا اور ہندوستان سے تجارت ختم ہو گئی‘ ملک طوائف الملوکی کا شکار ہوگیا اور آہستہ آہستہ یورپ کا مرد بیمار بنتا چلا گیا یوں سپین کا پہلا سنہری دور اختتام پذیرہو گیا‘

سپین کا دوسرا دور 1929ءمیں شروع ہوا‘ بادشاہ الفانسونے سپین کی معیشت کو اٹھانے کا فیصلہ کیا‘ اس نے امریکا اور لاطینی امریکا کے ملکوں سے رابطہ کیا‘ کولمبس کا واسطہ دیا‘ نئی دنیا راضی ہوئی اور 1929ءکو سیویا میں جدید دنیا کی سب سے بڑی نمائش شروع ہو گئی‘ لاطینی امریکا کے تمام ملکوں نے سیویا میں اپنے قونصل خانے بنائے‘ اپنے تجارتی جہازوں کا رخ سپین کی طرف موڑا اور یوں سپین ایک بار پھر ٹیک آف کرنے لگا اور تیسرا دور 1992ءمیں شروع ہوا‘

بارہ اکتوبر1992ءکو امریکا کی دریافت کے پانچ سو سال پورے ہوئے‘سپین کے وزیراعظم فلپ گونزا لیز مارکوئز نے امریکی اقوام کو ایک بار پھر راضی کیا‘ سیویا میں امریکی ٹیکنالوجی اور مصنوعات کی ایک اور بین الاقوامی نمائش ہوئی اور سیویا کی مہربانی سے سپین ایک بار پھر جدید دنیا کے امیر ترین ملکوں میں شمار ہونے لگا‘ سپین آج جو کچھ ہے اس کی وجہ 1929ءاور 1992 کی نمائشیں ہیں۔ہم نے سیویا کی مرکزی شاہراہ پر نیم جدید ہوٹل سلکن اندلوسیہ میں قیام کیا‘ یہ سڑک 1929ءکی نمائش کےلئے تعمیر کی گئی تھی ‘

لاطینی امریکا کے زیادہ تر قونصل خانے اس سڑک پر واقع ہیں‘ پرانا شہر ہوٹل سے چار کلو میٹر دور تھا‘ ہم رات کے وقت سیویا کی قدیم گلیوں میں اتر گئے‘سیویا میں چار مقامات اہم ہیں‘ مسلمان بادشاہوں کا محل القصر‘ کیتھڈرل‘ انڈین آرکائیو اور جدید محل‘ ہم نے دوسرے دن یہ تمام مقامات ادھیڑ کر دیکھے‘ القصر مسلمانوں کی آخری نشانی ہے‘ محل کی بیرونی اور اندرونی دیواریں آج بھی قائم ہیں‘ ان میں اسلامی دور کی خوشبو بھی موجود ہے‘ نیلی اور سفید ٹائلیں‘ وہی آبنوسی لکڑی کی چھتیں اور ان چھتوں پر اسلامی نقش‘ وہی وزنی منقش دروازے‘ وہی پتھر کے فرش‘ وہی قدیم لکڑی کے قدیم جھروکے‘ وہی کمروں کے اندر فوارے اور محل کے چاروں اطراف وہی سبز باغات‘ مسلمانوں کی پوری تہذیب آج بھی القصر میں زندہ ہے‘

مسلمان اپنا طرز تعمیر مراکش سے لائے تھے‘ سپین کے عیسائی آرکی ٹیکٹس نے ان میں اپنا خون جگر ملایا اور یوں دنیا میں اندلسی طرز تعمیر نے جنم لیا‘ آپ کو یہ طرز تعمیر قرطبہ میں بھی ملتا ہے‘ غرناطہ میں بھی اور سیویا میں بھی‘ اندلسی لوگ اونچی چھتیں بناتے تھے‘ دیواریں موٹی ہوتی تھیں اور ان پر مٹی میں چونا ملا کر ایک ایک انچ لیپ کیا جاتا تھا اور پھر اس لیپ پر سنگ مرمر کے ٹکڑے اور چھوٹی ٹائلیں لگائی جاتی تھیں‘ یہ ٹائلیں‘ سنگ مر مر اور آبنوسی لکڑی تینوں مل کر اندلسی فن بن جاتی تھیں‘

دلانوں‘ ڈیوڑھیوں اور کمروں کے درمیان سنگ مرمر کے فوارے لگائے جاتے تھے اور فواروں کا پانی سفید پتھروں کی نالیوں سے ہوتا ہوا صحن کے تالاب میں جا گرتا تھا‘ تالاب کے گرد سرو کے چھوٹے بڑے درخت‘ بوگن بیل اور انگوروں کی بیلیں ہوتی تھیں اور ان بیلوں میں رنگ برنگے پرندوں کے گھونسلے ہوتے تھے‘ یہ فن القصر میں اپنے تمام رنگوں کے ساتھ موجود تھا‘ بادشاہ کا حرم چھوٹا سا الحمرا محسوس ہوتا تھا‘ گائیڈ نے بتایا عیسائی بادشاہ نے غرناطہ کے بادشاہ سے الحمرا کے معمار ادھار لئے اور محل کا یہ حصہ تعمیر کیا‘

کولمبس کا دفتر بھی القصر میں تھا‘ امریکا کی تمام تجارتی مہمات اسی دفتر سے روانہ ہوتی تھیں‘ کولمبس کے جہاز کا شناختی نشان اور کولمبس کی امریکا روانگی کی پینٹنگ دفتر کی دیواروں پر لگی تھی‘ پینٹنگ میں کولمبس کا دوست امریکانو ویسپیوسیو  صاف نظر آ رہا تھا‘ امریکانو نے سرخ ٹوپی پہن رکھی تھی‘ امریکانو اطالوی تھا اور کولمبس کا دوست تھا‘ کولمبس موت تک امریکا کو انڈیا سمجھتا رہا‘ اس نے اسی لئے امریکا کے قدیم باشندوں کو ”ریڈ انڈین“ کا نام دیاتھا‘

امریکانو پہلا شخص تھا جس نے نقشے کی بنیاد پر ثابت کیا ”کولمبس نے انڈیا کا نیا راستہ نہیں بلکہ ایک نئی دنیا دریافت کی “ امریکانو کی تھیوری بعد ازاں سچ ثابت ہوئی چنانچہ نئے ملک کا نام امریکانو کے نام پر امریکا رکھ دیا گیا‘ بادشاہ فرڈیننڈ نے 1508ءسیویا میں ”نیوی گیشن“ کی دنیا کی پہلی یونیورسٹی بنائی اور امریکانو کو اس کا سربراہ بنا دیا‘ یونیورسٹی کی عمارت آج تک موجود ہے‘ مجھے وہاں جانے کا موقع بھی ملا‘ سپین کے تمام جہاز ران کولمبس کے اس دفتر سے اجازت لے کر امریکا جاتے تھے اور بادشاہ ان کے تجارتی سامان سے اپنا حصہ وصول کرتا تھا‘

کولمبس کے دفتر کے بعد محل کے دو ہال بہت اہم ہیں‘ پہلا کارلو فائیو کی شہزادی ازابیلا دوم کے ساتھ شادی کا ہال تھا‘ ازابیلا پرتگال کی شہزادی تھی‘ وہ ہال کے دائیں دروازے سے اندر داخل ہوئی تھی جبکہ کارلو فائیو بائیں دروازے سے‘ دائیں دروازے پر آج بھی پرتگال کا جھنڈا اور شناختی نشان موجود ہے جبکہ بائیں دروازے پر سپین کا نشان اور جھنڈا تھا‘ یہ ہال خصوصی طور پر اس شادی کےلئے بنایا گیا تھا‘ دوسرا ہال تیونس کی فتح کی یادگار تھا‘ 1535ءمیں ترک بادشاہ سلطان سلیمان اول تیونس تک پہنچ گیا‘

وہ سیویا فتح کر کے یورپ داخل ہونا چاہتا تھا ‘کارلو فائیو نے یورپی فوج بنائی‘ بحری جہازوں پر تیونس پہنچا اور عثمانی خلیفہ کو شکست دی‘ اس شکست نے فیصلہ کر دیا عثمانی خلافت شمالی افریقہ سے آگے نہیں آئے گی‘ کارلو فائیو نے فتح کے بعد یہ وکٹری ہال بنوایا‘ ہال کی تین دیواروں پر طویل قالین لٹک رہے تھے‘ قالین بافوں نے قالینوں میں جنگ اور فتح کا سارا احوال نقش کر رکھا تھا‘ یہ کارپٹ پینٹنگز تھیں اور یہ پینٹنگزہر لحاظ سے ماسٹر پیس تھیں۔

علیمہ خان کی دبئی پراپرٹی کے حوالے سے کئی مرتبہ پہلے بھی پوسٹ کرچکا ہوں کہ یہ ایک فلیٹ تھا جو کہ " دی لافٹس ایسٹ " نامی ٹاور میں واقع تھا۔ بہت سے جمعوتیوں، فضلانڈوؤں اور پٹواریوں نے اس فلیٹ کو " اربوں " کی جائیداد بنا کر پیش کیا اور تاثر دیا کہ جیسے سارے پاکستان کی دولت سے یہ ایک فلیٹ خریدا گیا۔

کچھ حقائق پیش خدمت ہیں:

1۔ علیمہ خان کا یہ فلیٹ دی لافٹس ٹاور نامی بلڈنگ میں تھا

2۔ پراپرٹی فائنڈر ڈاٹ اے ای دبئی رئیل اسٹیٹ کی سب سے بڑی ویب سائٹ ہے، اس پر اگر آپ دی لافٹس ایسٹ ٹاور کی قیمتیں چیک کریں تو ڈیڑھ ملین درھم سے لے کر ڈھائی ملین درہم کی رینج ملتی ہے، خاص کر ان فلیٹس کی جن کا ایریا چودہ سو سکوائر فٹ کی رینج میں ہو۔

3۔ پاکستانی کرنسی میں یہ رقم ساڑھے پانچ کروڑ سے لے کر نو کروڑ کی رینج میں بنتی ہے۔ اس رقم میں لاہور ڈیفینس میں ایک کنال کا گھر مشکل سے ملتا ہے ۔ ۔ ۔

4۔ علیمہ خان نے 1989 میں لمز سے ایم بی اے کی ڈگری لی تھی، اور یہ غالباً لمز کا پہلا بیچ بھی تھا۔ علیمہ خان اس کے بعد ٹیکسٹائل بزنس میں آئی اور ایکسپورٹس کے شعبے میں کامیاب بزنس شروع کیا۔ اگر آپ علیمہ خان کے بزنس کو گھٹیا ظاہر کیلئے اسے ٹیکسٹائل کی بجائے سلائی مشین کا کام کہتے ہیں تو پھر سارا پاکستان ہی سلائی مشین کی کمائی کھارہا ہے کیونکہ پاکستان کی سب سے بڑی ایکسپورٹ ٹیکسٹائل کے شعبے سے ہی وابستہ ہے۔

5۔ علیمہ خان بہت سی ملٹی نیشنل گارمنٹس فرمز کے پاکستان میں آرڈرز مینیج کرتی رہی ہے اور جو لوگ اس شعبے سے وابستہ ہیں، وہ بخوبی جانتے ہوں گے کہ اس شعبے کا کمیشن مارجن کتنا ہے۔ خود میرے جاننے والے لوگ چند برسوں میں کروڑ پتی ہوگئے۔ ایکسپورٹ کا کام ہی ایسا ہے۔

6۔ اب اگر اس شعبے کی ایک کامیاب بزنس وومن نے سات، آٹھ کروڑ کی ایک پراپرٹی دبئی میں بنا لی تو اس میں کوئی حیرانی کی بات نہیں۔ اعظم مارکیٹ لاہور کا کوئی بھی دکاندار اتنی رقم ہر سال خرچ کر سکتا ہے۔

اب آجائیں ٹیکس کے معاملات کی طرف۔

علیمہ خان نہ تو سیاسی عہدہ رکھتی تھی اور نہ ہی سیاست میں کبھی آئی۔ اس پر یہ کبھی بھی لازم نہیں رہا کہ وہ اپنے تمام اثاثہ جات ڈیکلئیر کرتی، کیونکہ یہ ریکوائرمنٹ ان پر ہوتی ہے جو الیکشن لڑتے ہیں اور عوامی عہدے رکھتے ہیں۔

چند سال قبل ایک قانون سازی کے نتیجے میں پاکستانی بزنس مین پر یہ لازم کردیا گیا کہ وہ اپنی غیرملکی جائیدادوں کو بھی گوشواروں میں ظاہر کرے اور یہ وہی سال تھا جب علیمہ خان کے پاس دبئی کی یہ پراپرٹی تھی۔ علیمہ خان سے غلطی بس اتنی ہوئی کہ اس سے اس سال گوشواروں کا اندراج نہ ہوا۔

لیکن اس غلطی کا خمیازہ اسے اس طرح بھگتنا پڑا کہ وزیراعظم کی بہن ہونے کی وجہ سے تنقید کی زد میں آگئی۔ ریوینیو ڈپارٹمنٹ کے قواعد کے مطابق ایسی غلطی کو آپ جرمانے کی ادائیگی سے سدھار سکتے ہیں۔ اس جرمانے کا تعین متعلقہ ٹیکس افسر کرتا ہے اور اگر آپ کو لگتا ہے کہ اس نے جرمانے کی رقم زیادہ کردی تو آپ اس کے خلاف اپیل دائر کرسکتے ہیں۔ ایک اچھا ٹیکس کا وکیل یہ اپیل اگر کرتا ہے تو جرمانے کی رقم بآسانی اسی فیصد تک کم کروا سکتا ہے۔

علیمہ خان کی بدقسمتی کہ وہ عمران خان کی بہن تھی، چنانچہ ریوینیو ڈیپارٹمنٹ نے اس پر فلیٹ کی رقم یعنی ساڑھے سات کروڑ کا پچیس فیصد ٹیکس اور پچیس فیصد جرمانہ کردیا۔ علیمہ خان نے اپنے بھائی کو تنازعات سے بچانے کیلئے پونے چار کروڑ روپے کی رقم ادا کردی، حالانکہ اگر وہ چاہتی تو ایک وکیل کو پانچ لاکھ دے کر یہ جرمانہ بیس لاکھ کروا سکتی تھی۔

ایک طرف عمران خان کے رشتے دار ہیں جو قانون میں دی گئی رعایات بھی استعمال نہیں کرتے اور کروڑوں کے اضافی ٹیکس ادا کررہے ہیں، دوسری طرف شریف برادران اور زرداری ہیں کہ جنہوں نے قوم کے کھربوں روپے لوٹے، لیکن جب ان کے خلاف کاروائی ہوئی تو انہوں نے لیٹرینوں کے گندا ہونے اور قبر کے ٹرائل کرنے کا شور مچا دیا۔

لیڈرشپ کا فرق آپ کے سامنے ہے، اب یہ آپ کے ظرف، عقل اور شعور پر منحصر ہے کہ آپ کس لیڈرشپ کا ساتھ دیتے ہیں!!! بقلم خود باباکوڈا





میرے ایک دوست ہیں احمد مبارک‘ میں پچھلے بیس برسوں سے انہیں جانتا ہوں‘یہ ڈی آئی جی پولیس تھے‘ یہ دوران سروس مجھے جب بھی فون کرتے تھے‘ میں ان سے پوچھتا تھا ”آپ آج کل کہاں تعینات ہیں“اور یہ ہر بار کسی نہ کسی نئی جگہ‘ کسی نہ کسی نئے عہدے کا حوالہ دے دیتے تھے‘ یہ مجھے افسر کم اور فٹ بال زیادہ محسوس ہوتے تھے کیونکہ یہ سال چھ ماہ سے زیادہ کسی جگہ ٹک کر سروس نہیں کر سکے‘ یہ پوسٹ ہوتے تھے‘ کسی نہ کسی معاملے پر ان کا سینئرز‘ مقامی ایم این اے‘ ایم پی اے یا پھر کسی وزیر یا وزراء اعلیٰ سے پھڈا ہوتا تھا اور یہ اگلے ہی دن ٹرانسفر ہو جاتے تھے‘

آپ ٹھنڈے دل و دماغ سے سوچئے‘ کیا کوئی شخص ہر سال اپنے پورے خاندان کے ساتھ نئی جگہ ایڈجسٹ ہوسکتا ہے‘ کیا یہ اس خانہ بدوشی کے عالم میں اپنے بچوں کو تعلیم دلا سکتے تھے‘ کیا یہ اپنے خاندان کو پال سکتے تھے‘ کیا یہ بار بار کی ٹرانسفرزسے اپنی نفسیات کو بگڑنے سے بچا سکتے تھے اور کیا یہ ایک سال میں کسی ڈسٹرکٹ یا ڈویژن کو پوری طرح سمجھ سکتے تھے؟ اور اگر یہ سمجھ جاتے تو کیا یہ زیادتی نہیں آپ اس شخص کو اس عہدے سے ہٹا رہے ہیں جس نے سال بھر کی محنت کے بعد علاقے کے مزاج اور جرائم کی وجوہات کو سمجھ لیا اور یہ جب ڈیلیور کرنے کی پوزیشن میں آیا تو آپ نے اسے ہٹا کر اس کی جگہ پر ایک ایسا شخص لگا دیا جس کو اب اس علاقے کو سمجھنے کیلئے سال بھر کا عرصہ چاہیے اور آپ اس کو بھی سال چھ مہینے بعد فارغ کر دیں گے‘ کیا یہ گورننس ہے؟ کیا اسے اچھی ایڈمنسٹریشن کہا جائے گا؟ یہ ایس ایس پی اور ڈی آئی جی رینک کے آفیسرز کی حالت ہے‘ آپ اگر ایس ایچ اوز کا ڈیٹا نکالیں تو آپ کو لاہور جیسے شہرکا ڈیٹا حیران کر دے گا‘ لاہور میں ایس ایچ او کی او سطاً پوسٹنگ ایک ماہ ہے‘ ایس ایچ او بمشکل کسی تھانے کا چارج لیتا ہے اور اگلے دن اس کی معطلی یا پوسٹنگ کا حکم آ جاتا ہے‘ آپ خود سوچئے جس افسر کو یہ اعتماد نہیں ہو گا کہ میں اس علاقے یا اس عہدے پر اتنے سال کیلئے آیا ہوں اور کوئی ایم پی اے‘ ایم این اے یا وزیر میرا تبادلہ نہیں کر سکتا وہ اطمینان کے ساتھ کیسے کام کرے گا؟
ملک کی حالت یہ ہے جب بھی کوئی ایم پی اے یا ایم این اے سیاسی جماعت تبدیل کرتا ہے تو وہ ”خریدار جماعت“ سے اپنے حلقے کے ایس ایچ اوز‘ ڈی ایس پی‘ پٹواری اور نائب تحصیلدار اور تحصیلدار تبدیل کرنے کا مطالبہ کرتا ہے اور اس سیاسی قلابازی کا نتیجہ سرکاری افسروں کے تبادلے اور تعیناتی کی شکل میں نکلتا ہے‘ آپ جب پولیس اور محکمہ مال کی تعیناتیاں ان لوگوں کے ہاتھ میں دے دیں گے جو اس سے براہ راست فائدہ اٹھا سکتے ہیں تو آپ اس علاقے کی لاء اینڈ آرڈر کی صورتحال کا اندازہ خود لگا سکتے ہیں۔ 
اور ہمارے ملک میں یہ کھیل روزانہ ہوتا ہے اور اس کھیل کے نتیجے میں مظلوم لوگ ایف آئی آر کٹوانے‘ ملزم کو گرفتار کرانے‘ اپنے بے گناہ عزیز کو چھڑوانے‘ زمین کا فرد لینے اور اپنی زمین کا قبضہ لینے کیلئے تھانے یا کچہری نہیں جاتے‘ یہ ایم پی اے یا ایم این اے کے ڈیرے پر جاتے ہیں اور وہاں سے جس شخص کے بارے میں فون آ جاتا ہے پولیس اس کیلئے تھانے کے دروازے کھول دیتی ہے جبکہ باقی مظلوم تھانے کے باہر بیٹھے رہتے ہیں۔

آپ اس صورتحال پر غور کیجئے اور اب فیصلہ کیجئے ہمارے سرکاری ملازمین بالخصوص پولیس اور ڈی ایم جی کے پاس اب کیا آ پشن بچتا ہے؟ کیا یہ سسٹم انہیں یہ پیغام نہیں دے رہا‘ آپ اگر او ایس ڈی نہیں بننا چاہتے‘ آپ اگر اپنی پوسٹنگ بچانا چاہتے ہیں اور آپ اگر ملک کے دور دراز علاقوں میں تبادلے سے بچنا چاہتے ہیں تو آپ کے پاس ایک ہی راستہ ہے آپ ملک اور عوام کی بجائے اپنے سینئرز‘ سیاستدانوں‘ حکمران جماعت اور طاقتور اداروں کی غلامی میں چلے جائیں اور آپ کا سینئر‘ آپ کی حکمران جماعت اور آپ کا ایم پی اے یا ایم این اے آپ کو جو حکم دے آپ اچھے غلام کی طرح اس پر چپ چاپ عمل کریں‘

ہماری بیورو کریسی نے یہ پیغام نہ صرف سن لیا ہے بلکہ یہ اس کو سمجھ بھی گئی ہے اور یہ اس پر عمل بھی کر رہی ہے اور ”یس سر“ کے اس سسٹم کی سزا اب عام شخص کے ساتھ ساتھ اقتدار سے بے دخل حکمرانوں کو بھی ملتی ہے‘ حکومتی پارٹی جب قانون کے رکھوالوں کو حکم دیتی ہے تو یہ میاں نواز شریف کے والد کو دفتر سے کرسی سمیت اٹھا لیتے ہیں‘ یہ فاروق لغاری کو سر عام تھپڑ ماردیتے ہیں‘ یہ نصرت بھٹو پر لاٹھیاں برسا دیتے ہیں‘ یہ بے نظیر بھٹو کو سڑکوں پر گھسیٹتے ہیں‘

یہ شریف فیملی کو اٹک قلعے میں پھینک دیتے ہیں‘ یہ آصف علی زرداری کی زبان کاٹ دیتے ہیں‘ یہ میاں نواز شریف کو دھکے دے کر اسلام آباد ائیر پورٹ سے جدہ پہنچا دیتے ہیں‘ یہ بے نظیر بھٹو کی جائے شہادت دھو دیتے ہیں‘ یہ چیف جسٹس کو بھی بالوں سے پکڑ لیتے ہیں‘ اب حکم ہوا تو نیب نے شہباز شریف کو بھی حراست میں لے لیا‘ آپ نواز شریف کا سارا کیس اٹھا کر دیکھ لیجئے آپ کو یہ حقائق اس میں بھی نظر آئیں گے اوریہ اس غلامانہ سوچ کا نتیجہ ہے جس کے ذریعے ہمارے حکمرانوں نے پولیس کو ذہن نشین کرا دیا تم نے قانون کی بجائے اپنے آقا کی پیروی کرنی ہے

چنانچہ یہ پوسٹنگ بچانے اور تبادلے سے بچنے کیلئے اپنی ساری توانائیاں آقا کے حکم کی بجا آوری میں لگا دیتے ہیں اور اس کا خمیازہ عام شخص کے ساتھ ساتھ حکمران طبقہ بھی بھگتتا ہے‘ مجھے یقین ہے آج اگر ملک میں مارشل لاء لگ جائے اور مارشل لاء ایڈمنسٹریٹر پولیس کو آصف علی زرداری‘ میاں نواز شریف‘ میاں شہباز شریف‘ عمران خان اور سپریم کورٹ کے ججوں کو ڈنڈے مارنے اور سڑکوں پر گھسیٹنے کا حکم دے دے توپولیس چند لمحوں میں یہ کر گزرے گی کیونکہ ان کا آقا بدل چکا ہو گا اور انہوں نے اس آقا سے بھی اپنی پوسٹنگ بچانی ہے۔

ہم آتے ہیں اب اس کے حل کی طرف‘ اس کے تین حل ہیں‘ پاکستان کی تمام فیلڈ پوسٹنگز تین سال کیلئے کر دی جائیں‘ یہ قانون اگر پہلے سے موجود ہے تو اس پر سختی سے عمل کیا جائے‘ ان تین برسوں میں کوئی سینئر یا کوئی سیاستدان کسی افسر کو اس کی جگہ سے نہ ہٹا سکے‘ اگر کوئی افسر مس کنڈکٹ کا مرتکب ہویا قانون کی خلاف ورزی کرے‘ یہ کسی کو فیور دے یا کسی کو بلاجواز نقصان پہنچائے تو محکمہ اس کا کیس سپیشل باڈی کو بھیج دے‘ ملک کے تمام صوبوں اور وفاق میں سرکاری افسروں کیلئے سپیشل باڈیز بنائی جائیں‘

ان باڈیز میں ریٹائر سینئر بیورو کریٹس‘ ریٹائر ججز حضرات‘ سینئر پروفیسرز اور سینئر بزنس مین شامل ہوں‘ یہ کیس کا جائزہ لیں اور ایک ہفتے کے اندر اندر فیصلہ دے دیں‘ محکمے کا سینئر اگر سپیشل باڈی کے سامنے کسی جونیئر پر لگائے جانے والے الزام ثابت نہ کر سکے تو یہ سپیشل باڈی اس کی اے سی آر میں نیگٹو پوائنٹ دے دے اور یہ افسر پانچ چھ نیگٹو پوائنٹس کے بعد ترقی کی فہرست سے باہر ہو جائے‘ کابینہ‘ وزیراعلیٰ‘ وزیراعظم اور صدر کا پوسٹنگز اور تبادلوں کا صوابدیدی اختیار فوری طور پر ختم کر دیا جائے‘

ملک کے تمام محکموں کے رولز دیکھے جائیں‘ ان رولز کے مطابق میرٹ بنے اور تمام سرکاری ملازم اس میرٹ لسٹ اور رولز کے مطابق ترقی پائیں اور ان کی پوسٹنگز اور تبادلے ہوں‘ کوئی افسر اس لسٹ میں اچانک شامل نہ ہو سکے اور کسی کو خاص پروسیجر کے بغیر فہرست سے خارج نہ کیا جا سکے‘ انیس سے بائیسویں گریڈ کی تمام تقرریوں کا فیصلہ فیڈرل پبلک سروس کمیشن کرے‘ حکومت کسی کو ہٹا سکے اور نہ ہی لگا سکے اور سپریم کورٹ ایڈہاک‘ ایکٹنگ چارج اور ایکسٹینشن پر قطعی پابندی لگا دے‘

ہماری حکومتیں ایکسٹینشن‘ ایکٹنگ چارج اور ایڈہاک سے بھی جی بھر کر فائدہ اٹھا رہی ہیں‘ یہ مرضی کے ملازموں کو ایکٹنگ چارج دے دیتے ہیں‘ ان کی مدت ملازمت میں اضافہ کر دیتے ہیں یا پھر انہیں ایڈہاک پر اہم عہدوں پر لے آتے ہیں‘ سپریم کورٹ پابندی لگا دے گی تو یہ راستہ بند ہو جائے گا‘ سپریم کورٹ حکم جاری کر دے تمام محکمے کسی تبادلے یا ریٹائرمنٹ سے پہلے اس پوزیشن پر نیا عہدیدار تعینات کریں گے تاکہ وہ عہدہ خالی نہ رہ سکے‘ کوئی افسر چھٹی پر جائے تو اس کے اختیارات جونیئر افسر کو منتقل ہو جائیں لیکن وہ صرف محدود پیمانے پر عارضی احکامات جاری کر سکے۔

ان کی حتمی توثیق وہ افسر واپس آ کر کرے اور اگر وہ حکم واپس لینا چاہے تو وہ پرانا فیصلہ معطل بھی کر سکے گا۔ بیوروکریسی کو ریاست کا ماتحت ہونا چاہیے حکومت کا نہیں‘آپ نے پچھلے دنوں تین چار بڑے واقعات پڑھے ہوں گے‘ پہلا واقعہ آئی جی پنجاب کا تبادلہ تھا‘ آئی جی پنجاب طاہرخان کا تبادلہ ایک ماہ دو دن بعد کر دیا گیا تھا‘اس متنازعہ فیصلے کی وجہ سے پنجاب پولیس ریفارمز کمیشن کے چیئرپرسن ناصر درانی اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے‘

ڈی پی او پاکپتن رضوان گوندل کا ایشو بھی ساری دنیا کے سامنے ہے‘آج آپ صرف یہ معلوم کرلیجئے رضوان گوندل کہاں ہیں اور ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہے تو آپ کی آنکھیں کھل جائیں گی‘ ڈی سی راجن پوراللہ دتہ وڑائچ نے پی ٹی آئی کے ایم این اے نصراللہ دریشک اور صوبائی وزیر سردار حسنین بہادر دریشک کی جانب سے انتظامی امور میں مداخلت پر کمشنر ڈی جی خان کو مراسلہ لکھا تھا اور ڈی سی چکوال غلام صغیر شاہد نے چیف سیکرٹری پنجاب کو خط لکھ کر پی ٹی آئی کے ایم این اے ذوالفقارعلی خان پرسرکاری کاموں میں مداخلت کا الزام لگایا تھا‘ یہ دونوں ڈی سی آج کس حال میں ہیں؟ آپ ان کا بھی پتہ کرا لیجئے۔

سپریم کورٹ کو ان ایشوز کا بھی نوٹس لینا چاہیے ورنہ ہماری غلام بیورو کریسی مزید غلام ہو جائے گی اور یہ کسی دن کسی بھی طاقتور شخص کے حکم پر صدر‘ وزیراعظم اور چیف جسٹس کو گرفتار کر لے گی اور ان پر بھینس چوری کا مقدمہ بنا دے گی کیونکہ بیورو کریسی جب قانون کے طاق سے اتر کر حکمرانوں کی انا کی غلام بنتی ہے تو پھر کسی عزت دار شخص کی عزت محفوظ نہیں رہتی‘ پھر ہر چڑھتا سورج سجدہ گاہ بن جاتا ہے اور ہر گزرا حکمران کچرہ گھر۔

نوٹ: کالمز کی یہ سیریز میں نے اپنے 80 ممالک کے وزٹس‘مطالعے اور مشاہدے کی روشنی میں لکھی ہے‘ان پر مزید بات ہو سکتی ہے‘ میراخیال ہے حکومت کو ان پوائنٹس کا سنجیدگی سے نوٹس لینا چاہیے‘ اس سے سسٹم بہتر ہو سکتا ہے اور پاکستان واقعی پاکستان بن سکتا ہے۔

’’پھرتے ہیں میر خوار کوئی پوچھتا نہیں‘‘، تین بار وزیراعظم رہنے والے میاں نواز شریف کچھ عرصے سے خاصے بجھے بجھے، خا موش اور اداس دکھائی دیتے ہیں۔ بظاہر ’پاناما گیٹ‘ کا شکار ہو کر اقتدار سے رخصتی کے بعد شریف فیملی بالخصوص اوران کی پارٹی مسلم لیگ (ن) کے چیدہ چیدہ رہنماؤں پر بالعموم عرصہ حیات تنگ ہو رہا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ مصیبت کبھی اکیلی نہیں آتی، میاں نوازشریف کا بھی یہی حال ہے۔ ان کی اہلیہ محترمہ کلثوم نواز لندن میں کینسر سے مقابلہ کرتے کرتے زندگی کی بازی ہار گئیں اور ان کا11 ستمبر کو وہیں انتقال ہو گیا۔ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز کئی مرتبہ اپنے اس دکھ کا اظہار کر چکے ہیں کہ وہ کلثوم نواز کے آخری ایام میں ان کے سرہانے موجود نہیں تھے۔ ذہنی طور پر نارمل ہونے کے باوجود میاں صاحب عملی سیاست میں حصہ نہیں لے رہے، اگرچہ بطور رہبر وہی اپنی سیاسی جماعت کے مدارالمہام ہیں۔ بدقسمتی سے برادر خورد میاں شہبازشریف جنہیں میاں صاحب کی جگہ مسلم لیگ (ن) کا صدر منتخب کیا گیا تھاکو بھی نیب کے کیسز میں الجھا کر اچانک گرفتار کر لیا گیا۔ اگرچہ ریمانڈ در ریمانڈ لینے کے با وجود سابق وزیراعلیٰ کے خلاف ابھی تک کوئی ریفرنس دائر نہیں ہوا لیکن جس اندازمیںدونوں بھائیوں کے خلاف گڑھے مردے اکھاڑے جا رہے ہیں ان کی مستقبل قریب میں خلاصی ہوتی نظر نہیں آتی۔ نواز شریف کے سر پر دو مزید ریفرنسز العزیزیہ اورفلیگ شپ کی تلوار لٹک رہی ہے اور ہنگامی بنیادوں پر ان کا ٹرائل ہو رہا ہے جیساکہ ان کو پہلے ریفرنس ایون فیلڈ میں ضمانت کے بعد دوبارہ اندر بھیجنے کی کوئی جلدی ہو ۔ کہا جاتا ہے کہ میاں صاحب اپنی اہلیہ کی جدائی کے بعد انتہائی مغموم ہیں اور اسی لئے خاموش ہیں لیکن یہ خاموشی اس لحاظ سے معنی خیز ہے کہ اب یہ بہت طویل ہو گئی ہے اور محترمہ کلثوم نواز کے چالیسیویں کے بعد بھی میاں نواز شریف سیاسی معاملات پر گفتگو کرنے سے مسلسل گریزاں ہیں اور ان کی صاحبزادی مریم نواز تو بالکل ہی منظر سے غائب ہو گئی ہیں۔ ان کی شعلہ نوائی اور جارحانہ ٹویٹس اب کہیں نظر نہیں آتے۔ غالباً میاں صاحب ہارڈ لائن لیکر اپنی مشکلات میں اضافہ نہیں کرنا چاہتے، جب تک وہ نیب عدالت کی پیشیاں بھگت رہے ہیں شاید چپ کا روزہ رکھیں گے۔ پہلے تو نواز شریف کے ناقدین جن میں تحریک انصاف کے رہنما پیش پیش ہیں نے یہ درفنطنی اڑائی کہ میاں فیملی ایک اور این آر او مانگ رہی ہے۔ ایک وفاقی وزیر نے تو یہ تک کہہ دیا کہ انہیں معلوم ہے کہ این آر او کن شرائط پر ہو رہا ہے۔ وزیراعظم عمران خان اور خود نواز شریف کے قریبی حلقوں کو دوٹوک تردید کرنا پڑی کہ ایسی کوئی سودے بازی نہیں ہو رہی۔ ویسے بھی اس مر حلے پر این آر او کی بات انتہائی مضحکہ خیز لگتی ہے، این آر او کون کرے گا اور کن کے درمیان ہو گا۔ واضح رہے کہ آمر مطلق جنرل پرویزمشرف اور محترمہ بے نظیر بھٹو جو اس وقت جلاوطنی میں تھیں کے درمیان جو این آر او ہوا تھا اس کا بلاواسطہ فائدہ نواز شریف کو بھی پہنچا جب سعودی فرمانرو انے جنرل پرویز مشرف کو کہا کہ اگربے نظیر بھٹو کو واپس لے لیا ہے تو نواز شریف کو بھی واپس آنے کی اجازت دیں لیکن مدر آف آل این آر اوز وہ ڈیل تھی جس کے تحت نواز شریف اپنے سارے خاندان کے ہمراہ 2000ء میں جدہ میںسعودی حکومت کے سرکاری مہمان بن کر سرور پیلس پہنچ گئے تھے۔ اس وقت بھی شہباز شریف جلاوطنی میں جانے کو تیارنہیں تھے لیکن اس وقت کے ڈی جی ایم آئی لیفٹیننٹ جنرل احسان الحق نے شہباز شریف پر واضح کردیا تھا کہ اگر آپ اس ڈیل پر دستخط نہیں کریں گے تو شریف فیملی کے کسی بھی فرد کوجدہ جانے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔ سیاسی مبصرین سمیت سب کے ذہنوں میں یہ سوال ابھر رہا ہے کہ نواز شریف آخر کیوں خاموش ہیں؟ کیونکہ وہ نچلے بیٹھنے والے سیاستدان نہیں ہیں جو لوگ ان سے واقف ہیں انھیں اچھی طرح معلوم ہے کہ نواز شریف کے اندر کیا طوفان ہو گا۔ کیا انھوں نے فوجی قیادت اور عمران خان کے بارے میں اپنے نظریات بدل لیے ہیں، یقینا ایسا نہیں ہے۔ نواز شریف کی خاموشی سٹرٹیجک لگتی ہے۔ چند روز قبل چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ کے صاحبزادے سعد صدیق باجوہ کی دعوت ولیمہ میں خاصے عرصے بعد چودھری نثار علی خان سے ملاقات ہو گئی۔ گپ شپ کے دوران میرے اس سوال پر کہ آپ اور میاں نواز شریف کے درمیان برف پگھلی ہے؟ چودھری صا حب نے دوٹوک انداز میں کہا کہ کوئی رابطہ نہیں ہے۔ پھرمیاں نواز شریف کی خاموشی پر تبصرہ کرتے ہوئے چودھری نثار نے کہا کہ اگرمیاں صاحب میری بات مان لیتے تو ان کی سیاسی جماعت اس وقت پھر برسراقتدار ہوتی۔ واضح رہے کہ چودھری نثار اس وقت نواز شریف کو مشورہ دے رہے تھے کہ آپ فوج سے پنگا نہ لیں اور خاموشی سے براستہ موٹروے گھر چلے جائیں کیونکہ محاذ آرائی سے کچھ حاصل نہیں ہو گا بلکہ الٹا نقصان ہوگا۔ اس وقت بڑھکیں مارنے والے میاں صاحب کے مشیر اور نورتن انھیں مشورے دے رہے تھے کہ حضور! آپ جی ٹی روڈ کے ذریعے جب تک جلوس لے کر لاہور پہنچیں گے تو کایا پلٹ چکی ہو گی۔ یقینا میاں صاحب کو جی ٹی روڈ پر کسی حد تک پذیرائی بھی ملی تھی اور اس طرح ٹھنڈی کرکے کھانے والے سیاستدانوں جن میں چودھری نثار پیش پیش تھے کو سیاسی طور پر سائیڈ لائن پرکردیا گیا۔ میاں نوازشریف نے عام انتخابات سے قبل 13جولائی کو لندن سے بڑے طمطراق سے لاہور ایئرپورٹ پر لینڈ کیا لیکن ان کے استقبال کے لیے آنے والے لوگوں کی تعداد اتنی نہیں تھی جس کی وہ توقع کر رہے تھے، میاں نواز شریف اور ان کی صاحبزادی کو سکیورٹی اداروں کے حصار میںسیدھا اڈیالہ جیل پہنچا دیا گیا۔ اس طرح نواز شریف وطن واپس آکر انتخابات میں جتنا سیاسی فائدہ چاہتے تھے اتنا حاصل نہ ہو سکا۔ بعد از خرابی بسیار سابق وزیراعظم کو یہ احساس ہو گیا ہے کہ ان کی جارحانہ بیٹنگ کا کوئی فائدہ نہیں ہوا،لیکن سب کچھ لٹا کر ہوش میں آئے توکیا کیا۔ یہ دلچسپ حقیقت ہے کہ شہبازشریف جن کی لائن نوازشریف کی جارحانہ حکمت عملی کے برعکس فوجی قیادت کے ساتھ صلح جوئی کی تھی وہ بھی انھیں نیب یاترا سے نہ بچاسکی۔ شہباز شریف کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ بہت اچھے تعلقات تھے اور ایک وقت تک بظاہرفوجی قیادت کی یہی خواہش لگتی تھی بڑے بھائی کے برعکس شہباز شریف کو پروموٹ کیا جائے لیکن بعدازاں جب یہ محسوس کیا گیا کہ چھوٹے میاں صاحب اپنے بڑے بھائی کے خلاف کھلم کھلا سٹینڈ لینے کو تیار نہیں تو ان کا سنگھاسن بھی ڈول گیا۔ دراصل میاں نواز شریف اور شہبازشریف کی سیاست لازم وملزوم ہے، اگر ووٹ بڑ ے بھائی کو پڑتے ہیں تو چھوٹے بھائی کی کارکردگی مسلم لیگ (ن) کے لیے باعث تقویت ہے۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو شہبازشریف کی سیاست میاں نواز شریف کے بغیر نہیں پنپ سکتی۔ یہ توقع عبث ہے کہ وہ بڑے میاں صاحب کے خلاف سینہ سپرہو جائیں گے۔ اگر انھوں نے ایسا کیا تو وہ زیرو ہو جائیں گے۔ دیکھا جائے تو بقول پرویز مشرف یہ دونوں بھائی ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے ہیںیعنی جی ٹی روڈ سے جائیں یا موٹروے سے دونوں کی منزل ایک ہی ہے۔ 



سرفرازوہیں ٹھہریں گے تواستقامت اورصبرسے موجودہ طوفان میں کھڑے رہینگے۔اس لیے کہ جس بات کا ڈرتھا،خوف تھابلکہ کئی بزرجمہروں کویقین تھا،ملک اس حادثہ سے بچ گیاہے۔اقتصادی طورپرڈیفالٹ سے مکمل محفوظ۔ یہ عمران خان کی پہلی کامیابی ہے جواس نے خاموشی سے حاصل کی ہے اوراس پرزیادہ بحث بھی نہیں کرتا۔

پرانے کھلاڑیوں نے خاص منصوبہ بندی کے تحت ملک کوقرضوں میں گروی تورکھا ہی تھامگرمنصوبہ کچھ اور تھا۔ اس منصوبہ میں چندغیرملکی طاقتیں بھی شامل تھیں۔ بساط اس اَمرکی بچھائی گئی تھی کہ اگر پنتیس سال سے اس ملک کی شاہ رگوں سے خون پینے والے کامیاب ہوگئے تو فوری طورپرڈھول ڈھمکے کے شورمیں چپ کرکے حددرجہ سخت شرائط پرسخت قرض لے کرچندبڑے بڑے منصوبے جن میں سے ایک دو تو جاری بھی ہیں،انھیں کھلونابناکرعوام کا دل بہلایاجائے گا۔

لوگوں کودوبارہ بیوقوف بنایاجائے گا۔جیسے لاہور کی اورنج ٹرین اورشائدایک دواسی قبیل کے غیرسنجیدہ مہنگے ترین ترقیاتی اقدام۔ان منصوبوں میں ملک کی خیر مطلوب نہیں تھی۔پہلے بھی عرض کیاہے کہ انکواپنی جیت کا یقین تھا۔ہرادارے میں انھی کے پروردہ لوگ موجود تھے۔الیکشن میں ہارنابقول ان کے ممکن ہی نہیں تھا۔ مگر خدا کی مرضی بالکل مختلف تھی۔انتہائی بے ترتیبی سے الیکشن لڑتے ہوئے عمران خان کی جیت ہوگئی۔ ایک ایساکام، جوالیکشن سے چارپانچ ماہ قبل سوچابھی نہیں جاسکتا تھا۔
خیر یہ عوام کی مرضی تھی کہ ووٹ اسکوحددرجہ زیادہ پڑے۔آل شریف کے پیروں سے زمین نکل گئی۔یہی وہ وقت تھا جب پرانے کھلاڑیوں نے بوسیدہ کھیل کھیلا۔ دیر سے نتائج آنے کودھاندلی قراردیدیا۔حالانکہ پچھلے تمام الیکشنوں میں کبھی بھی کوئی نتیجہ وقت پرموصول نہیں ہوا۔ مسلم لیگ ن کے جیتے ہوئے کسی بھی الیکشن کے نتائج کومثال بناکر سامنے رکھ لیجیے۔دلیل سے عرض کرتا ہوں۔ چند سیاسی قوال حاصل کیے گئے۔قوالی کامصرع تھاکہ نادیدہ ہاتھ، پی ٹی آئی کی حکومت کولے کرآئے ہیں۔جب اسکابھی کوئی ثبوت نہ مل سکاتوپھردوتین ہفتوں کے لیے خاموشی چھاگئی کہ اب کیا کریں۔

چنانچہ ٹھیک دوماہ پہلے ایک خاص منصوبہ بندی کے تحت یہ بات پھیلانے کا عزم ہواکہ عمران خان کی ٹیم ناتجربہ کار،نااہل اورنکھٹوہے۔چند گروپ جن کو پیسے ملنے بندہوچکے تھے،انھیں سرمایہ بھی مہیا کیا گیا۔ دوماہ سے قیامت برپا کر دی گئی کہ ہائے ہائے،ملک بربادہوگیا۔تباہی مچ گئی۔ نااہل اورناتجربہ کارٹیم نے توملک کابیڑہ غرق کردیا۔

تحریک انصاف اس سازش کوموقعہ پرسمجھ نہ پائی۔اس کی ٹیم نے دوہفتے ضایع کردیے۔مگرجب معاملات کی سنجیدگی کا احساس ہواتوچوہدری فواد اور دیگر حضرات نے ترکی بہ ترکی جواب دیاجوجارحانہ بھی تھا تو بہت حدتک حقائق پر مبنی بھی۔ن لیگ کواس رویہ کی توقع نہیں تھی۔لہٰذااب انھوں نے روش تبدیل کرکے تحریک انصاف کے وزراء پر کیچڑاُچھالناشروع کردیا ہے۔ یہ سلسلہ ابھی جاری ہے۔ مگراگلے پندرہ بیس دن میں یہ معاملہ بھی ٹھنڈاپڑجائے گا۔

وزیراطلاعات کاعہدہ حددرجہ مشکل ہے۔ اگر دیکھا جائے توہروزیراطلاعات بھنورکی آنکھ میں زندگی گزارتا ہے۔فوادچوہدری کے ساتھ بالکل یہی ہورہاہے۔میری دانست میں وہ اپناکام سنجیدگی سے کررہاہے۔معاملات کو ان کے حقیقی تناظرمیں بیان کرنے کی کوشش کررہا ہے۔ دو مثالیں لے لیجیے۔

وزیراطلاعات کایہ کہناکہ بڑے بھائی یعنی نوازشریف کی بے قاعدگیوں کی تحقیقات کے لیے پی اے سی کمیٹی کی صدارت چھوٹے بھائی یعنی شہباز شریف کو نہیں دی جاسکتی۔یہ اُصولی طورپرحددرجہ درست بات ہے۔پوری دنیامیں ایک مثال بھی نہیں ملتی کہ سیاسی نظام میں ایک فردکی مالی بدعنوانی کواُسی خاندان کاایک فرد پرکھے۔لازم ہے کہ اسکارویہ حددرجہ جانبدارانہ ہوگا۔ اس اُصول کے تحت فواد چوہدری ٹھیک کہہ رہاہے۔ اس معاملے میں پی ٹی آئی کی پالیسی مکمل طورپردرست ہے۔

دوسری مثال، فوادچوہدری کایہ کہناکہ اگرنیب،آل شریف کے خلاف تحقیقات کرناختم کردے توقومی اورپنجاب کی صوبائی اسمبلی میں ہنگامہ ختم ہوجائے گا۔یہ بات بھی بالکل درست ہے۔آج اگر شہباز شریف اوربڑے بھائی کواین آراومل جائے۔ان کے خلاف تحقیقات روک دی جائیں۔ نیب برادرخوردکوچھوڑدے تو جمہوریت کے لیے ہرخطرہ ختم ہوجائے گا۔نکتہ ہی یہی ہے۔اگرعمران خان ،آل شریف کے معاشی جرائم سے صرفِ نظرکرلے،توسارامعاملہ ٹھیک ہوجائے گا۔مگرعمران این آراو ہونے نہیں دے رہا۔

اصل تکلیف بھی یہی ہے۔سامنے فواد چوہدری ہے کیونکہ بہرحال حکومت کانقطہِ نظراسی نے بیان کرنا ہے۔ لہذ اپرانے تمام کھلاڑی،فوادچوہدری کے خلاف کمال واویلا فرمارہے ہیں۔پرانے سیاسی کھلاڑی ثابت کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ تحریک انصاف کی ٹیم بچوں پرمشتمل ہے۔یہ تو ناتجربہ کارہے۔یہ توکام کرنے کی اہلیت ہی نہیں رکھتے۔ یہ منصوبہ بندی مکمل طورپرجاری وساری ہے۔ پر اب یہ اپنے منطقی انجام تک پہنچ رہی ہے۔ پرانے سیاسی گرگوں کو معلوم ہوچکاہے کہ وہ موجودہ حکومت کوگرانھیں سکتے۔

چلیے،تھوڑی دیرکے لیے عمران خان کی ٹیم کاسرسری ساجائزہ لے لیتے ہیں۔اس کے ارکان پر طائرانہ نظرڈال لیتے ہیں۔شاہ محمودقریشی سے بہتر وزیرخارجہ پچھلے دس پندرہ سال سے نہیں آیا۔ پیپلزپارٹی کی حکومت میں اس کی بہترکارکردگی سے گھبراکر”گرو”نے اسے تبدیل کرنے کی کوشش کی تھی۔مگرشاہ محمود،پیپلزپارٹی ہی چھوڑگیا۔ اس کا تمسخر اُڑایاگیا۔”گرو”نے کہاکہ وہ کبھی سیاست میں واپس نہیں آئیگا۔توقعات کے برعکس شاہ محمود قریشی دوبارہ الیکشن جیت گیا۔شاہ محمودسفارتی سطح پر حد درجہ فعال انسان ہے۔

اس کے مسلسل مربوط دوروں سے پاکستان کا نقطہِ نظروضاحت سے دنیاکے سامنے آرہاہے۔ہمارے دوستوں کے دل وسیج رہے ہیں۔ملتان اورتحریک انصاف کی اندرونی سیاست میں شاہ محمودکاکیارول ہے،اس پر دورائے ہوسکتی ہیں۔مگرسفارتی سطح پروہ حددرجہ کامیاب ہے۔کم ازکم، سرتاج عزیزاورفاطی سے ہزاروں نوری سال بہتر۔ خاموشی سے اپناکام کررہاہے ۔چلیے،اسے بھی چھوڑ دیجیے۔ کیا اَسد عمر وزارت خزانہ اسحاق ڈار سے بہترنہیں چلا رہا۔بالکل چلا رہا ہے۔مشکل ترین صورتحال میں اَسد عمر، نے پاکستان کو ڈیفالٹ سے بچایاہے۔ورنہ امریکی ڈالر دو سو روپے سے بھی بڑھ چکاہوتا۔مہنگائی کا بڑھنا تو کوئی لفظ ہی نہیں ہے۔ اگر پاکستان اقتصادی طورپر دیوالیہ ہو جاتا، تو کھانے پینے کی اشیاء کم ازکم دوسے تین ہزار گنا بڑھ جاتیں۔

پیٹرول کی قیمت کیاہوتی؟سوچتے ہوئے بھی خوف آتاہے۔یہ بات بھی درست ہے کہ چند اقتصادی فیصلے غیرمقبول ہوئے ہیں۔ مگر یہ سب کچھ مجبوری میں کیا گیا۔صرف اورصرف دیوالیہ پن سے بچنے کے لیے۔ یہ بھی درست ہے کہ پٹرول کی قیمت بڑھنے سے مہنگائی بڑھی ہے۔مگربتائیے جس ملک میں کوئی امیرآدمی ٹیکس دینے کے لیے تیارنہیں۔طاقتورطبقہ ایف بی آرکواپنی جیب میں ڈال کررکھتاہے۔وہاں ان ڈائریکٹ ٹیکس کے علاوہ دوسراراستہ کون سارہ جاتاہے۔

قوی یقین ہے کہ چھ ماہ کے اندر اندر، مہنگائی کم ہوجائیگی۔اَسدعمراس وقت اپنی بساط سے بڑھ کرمحنت کررہاہے۔آئی ایم ایف کی کڑی شرائط بھی تسلیم نہیں کررہا۔کیایہ سب کچھ اسحاق ڈار صاحب کررہے تھے۔ دل پرہاتھ رکھ کر بتائیے۔ کیا پاکستان میں کسی کوبھی معلوم تھا کہ اسحاق ڈار،کس دھڑلے سے ملک کی معیشت کو برباد کررہاہے۔گروی رکھ رہاہے۔ پیسہ بنارہا ہے۔ اَسد عمر کا مقابلہ اسحاق ڈار سے کرنا غیرمناسب ہے۔ اَسدعمرکے کردار پرکرپشن کاکوئی داغ نہیں ہے۔ یہ بذات خودایک محترم بات ہے۔

آگے بڑھیے۔کیاشفقت محمودکام نہیں کررہا۔ وزارت داخلہ کاوزیرمملکت فعال نہیں ہے۔صرف اور صرف میرٹ پربات کیجیے۔عمران خان اپنی ٹیم کے ساتھ میدان میں جم کرکھڑاہوچکاہے۔لازم ہے،چندکھلاڑی دوسروں سے بہترہونگے۔آہستہ آہستہ کام نہ کرنے والے،ٹیم سے باہر ہوجائینگے۔ کیا وزراء کی کارکردگی پر پہلے کبھی بھی کڑی نظررکھی گئی تھی۔بڑے میاں صاحب تو وزراء سے ملناتک پسند نہیں کرتے تھے۔ان کی کارکردگی کا جائزہ کیسے لیتے۔ ان کے مصاحبین کسی کے متعلق جوکچھ بھی فرما دیتے۔میاں صاحب اسی انفارمیشن کی بنیاد پر اپنا رویہ ترتیب دیتے تھے۔ ویسے ایک ایساشخص جوقومی اسمبلی میں جانااپنی توہین سمجھتا تھا،جوسینٹ کوجوتے کی نوک پر رکھتاتھا،جووزراء سے دور رہتا تھا۔ جسکو ملنے کے لیے ایم این اے سفارشیں کرواتے تھے۔

کیا واقعی اسکاموازنہ موجودہ وزیراعظم سے ہوناچاہیے جوہرہفتہ کابینہ کی میٹنگ بلاتا ہے۔مشاورت کرتا ہے۔ درست فیصلے کرنے کی بھرپور کوشش کرتا ہے۔ اداروں کے ساتھ توازن رکھنے کی عملی پالیسی اپناتا ہے۔کیاواقعی عمران خان پرتنقید کرنی چاہیے کہ وہ تین ماہ میں کابینہ کے درجنوں اجلاس کیوں بلاچکا ہے۔یہ بھی کامل بات ہے کہ اس کے سارے فیصلے درست نہیں ہیں۔لیکن کون سی حکومت ہے۔ جسکے سو فیصدفیصلے درست ہوں۔ہاں،ایک اور چیز پر بھی توجہ دیجیے۔اس حکومت میں کرپشن کاایک بھی اسکینڈل سامنے نہیں آیا۔

عمران خان،ایک ہیڈ ماسٹر کی طرح سختی کررہا ہے۔ کسی وزیرکی جرات نہیں کہ مالیاتی بے ضابطگی کرے۔آل شریف کوخوف ہی یہ ہے کہ اگرعمران خان پانچ سال حکومت کر گیا تو پھر انکاکیابنے گا۔اگرملک کی اقتصادی صورتحال درست ہوگئی توپھران کے اخباروں کی حدتک ترقیاتی کرشموں پرکون یقین کریگا۔قرائن تویہی ہیں کہ عمران خان کام بھی کرتارہیگااورپانچ سال بھی پورے کریگا۔ باقی غیب کاعلم توصرف خداکے پاس ہے۔


نواز، مریم خود ساختہ خاموشی، خزاں کے پتے بنی اپوزیشن، حکومتی بونگیاں، کرپشن، احتساب، بحث زوروں پر تھی، اچانک میں نے حسن نثار صاحب سے پوچھ لیا ’’بڑوں نے اتنا کچھ جمع کر لیا، کیا جو پاس نہیں، ارب، کھرب پتی ہو گئے، پھر بھی پیٹ ہیں کہ بھر ہی نہیں رہے، کیوں؟‘‘ حسن نثار بولے ’’بھریں گے بھی نہیں‘‘ میں نے حیران ہوکر کہا ’’کیوں‘‘ کہنے لگے ’’اقتصادیات کا بنیادی اصول ’لاء آف مارجنل یوٹیلٹی‘ قانونِ افادۂ مختتم بتائے کہ کوئی شخص پیاس سے مر رہا ہو یا اتنا پیاسا ہو کہ ایک گلاس پانی کے بدلے وہ اپنی کل جمع پونجی دینے پر بھی تیار ہو جائے، تب بھی چار، 5گلاس پانی پینے کے بعد کہہ دے گا کہ بس، کوئی مزید پانی پلانا چاہے گا تو کہہ دے گا، بس بھائی بس، پہلے پیاس سے مر رہا تھا اب پانی پلا پلا کر مارنا ہے، اسی طرح کوئی اتنا بھوکا بھی ہو کہ مرنے کے قریب، آخری دموں پر، وہ ایک، دو، تین، ہو سکتاہے کہ 10روٹیاں بھی کھا لے مگر جب پیٹ بھر جائے گا، کوئی مزید کھانے کیلئے کہے گا تو جواب آئے گا حضور بس... بھو ک سے تو بچ گیا، کیا اب کھلا کھلا کر مارنا ہے‘‘۔

لیکن اقتصادیات کا یہ ’لاء آف مارجنل یوٹیلٹی‘ کلکٹرز مطلب جمع کرنے والوں پر آکر بالکل ہی الٹ ہو جائے، جیسے کوئی نوادرات جمع کرنے والا، 10ہزار نوادرات بھی جمع کر چکا ہو، 20ہزار نوادرات بھی اس کے پاس ہوں، تب بھی وہ رُکے گا نہیں، اور، اور کا چکر چلتا رہے گا، اسی طرح نایاب ٹکٹیں جمع کرنے والا، جتنی نایاب ٹکٹیں زیادہ ہوتی جائیں گی، اتنی ہی ٹکٹوں کی بھوک بڑھتی جائے گی، یہی حال دو لت collectorsکا، جتنی دولت آتی جائے گی، اتنی ہی دولت کی بھوک بڑھتی جائے گی، یعنی ’دا مور یو ہیو‘ ’دا میریئر یو وانٹ‘، کوئی حد نہیں، بندہ انسان سے حیوان، مگر پیٹ بھرنے کا کوئی چانس نہیں، الٹا پیٹ کا سائز بڑھتا رہے گا، لہٰذا ہمارے نو دولتیوں کا بھی یہی حال کہ سائیکل والوں نے جہاز لے لئے مگر ہوس ختم نہ ہوئی، جھونپڑی والے محلوں میں آ گئے مگر حرص نہ گئی۔

استادِ محترم کی تھیوری پر جوں جوں سوچا، توں توں doubtsکلیئر ہوئے، سوچ رہا زرداری صاحب کہاں سے چلے تھے، کہاں آگئے مگر مجال ہے کہ گاڑی کہیں رُک رہی ہو، ابھی دو دن پہلے جعلی بینک اکاؤنٹس کیس میں چیف جسٹس، زرداری صاحب کے دستِ راست انور مجید سے مخاطب تھے ’’لانچوں سے بھیجے گئے پیسے واپس کر دیں، آپ کے گھر کے سامنے گھر، اس کے اندر گڑھا اور گڑھے سے جو کاغذات ملے، ہمیں اس کا بھی پتا اور دولت رحمت، اسے زحمت نہ بنائیں‘‘ اب زرداری صاحب سہارے کے بنا چل نہ پائیں، رات کو حفاظتی حصاروں کے بعد بھی اسلحہ رکھ کر سوئیں، انور مجید دو قدم چلنے سے قاصر مگر مجال ہے کہ کسی مرحلے پر بھی کوئی بولا ہو ’’غلطی ہو گئی‘‘، مجال ہے کسی کو کوئی پچھتاوا ہو، بات وہی کہ ’دا مور یو ہیو، دا میریئر یو وانٹ‘ لالچ ختم ہو رہا، نہ حرص وہ وس کا کوئی endاور نہ پیٹ بھر رہے، یہ سوچ آہی نہیں رہی کہ بندہ اس لئے نہیں کماتا کہ سکون نہ چین، رسوائی ہی رسوائی، یہ خیال آہی نہیں رہا کہ یہاں بچ بھی گئے تو اگلے جہان کیا بنے گا، وہاں تو ریکارڈ جلایا جا سکے گا نہ اصل کاغذات غائب کرائے جا سکیں گے۔

ہاؤس آف شریفس کو لے لیں، 69روزہ جیل، مزاحمت، بغاوت اور انقلاب سب غباروں سے ہوا نکال چکی، باپ، بیٹی ’چپ کر دڑ وَٹ جا‘ کی تصویر بنے بیٹھے، داماد کا اتا پتا ہی نہیں، دونوں بیٹے اور سمدھی اشتہاری، شہباز شریف نیب کی حراست میں، حمزہ، سلمان پیشیاں بھگت رہے، داماد مفرور، اللہ تعالیٰ نے کیا نہ دیا، عزت، شہرت، دولت، نام، مقام اور اللہ نے کتنے مواقع دیئے، اب سنبھل جاؤ، اب ہی سنبھل جاؤ، مگر خواہشات کا گھوڑا سرپٹ بھاگتا رہا، سب جانیں، مانیں کہ جانا ڈھائی گز کی قبر میں مگر کھڑے کر لئے 25پچیس ہزار کنال کے محل، بنا لیں 5پانچ براعظموں میں جائیدادیں، اتنا اکٹھا کر لیا کہ حساب دینا مشکل، اتنا جمع کر لیا کہ اگلی سات نسلیں صرف نوٹ کھائیں، پھر بھی ختم نہ ہو، لگ رہا کہ ان سب نے قیامت تک زندہ رہنا، ’میرے اثاثے ذرائع آمدنی سے زیادہ تو تمہیں اس سے کیا‘ جی بالکل! ہمیں اس سے کیا، ہماری کیا مجال، اوقات کہ پوچھ، جان سکیں، مگر آگے جا کر پوچھ لیا گیا تو کیا یہی کہیں گے کہ ’میرے اثاثے ذرائع آمدنی سے زیادہ تو تمہیں اس سے کیا‘ کیا یہ کہہ پائیں گے مگر بات وہی کہ ’دا مور یو ہیو، دا میریئر یو وانٹ‘ یہ پیٹ قبر کی مٹی ہی بھرے گی۔

اپنی تو گزر ہی جائے گی، اپنے بچوں، اگلی نسل کی فکر اور یہ فکر خوف میں تب بدلے، جب دیکھوں کہ عمران خان کے بعد تحریکِ انصاف پانی کا بلبلہ، پی پی اور بھٹو کا وارث بلاول جو ڈیڑھ ارب اثاثوں کا مالک، یہ الگ بحث کہ کیوں اثاثے اتنے سستے کہ اسلام آباد کی نواحی زمین آٹھ روپے فی مرلہ اور اسلام آباد کا گھر 20پچیس لاکھ بلکہ 70کلفٹن 40لاکھ کا، یہ رہنے دیں، یہ سنیں کہ کاغذاتِ نامزدگی بتائیں ارب پتی بلاول نے چار آنے کی خیرات بھی نہ کی، دل تو یہ بھی پوچھنے کو کر رہا کہ دس سال سے سندھ میں حکومت، بلاول کتنی بار تھر گئے، کیا مدد کی مرتی مخلوق کی، بس خوبصورت تقریریں کرے جا رہے، تھر میں بچے مرے جا رہے، صرف گزشتہ 11ماہ میں ساڑھے 5سو بچے مر چکے، اللہ بلاول کو خاندان سمیت اپنے حفظ و آمان میں رکھے مگر جب کوئی اپنا مرے تو لگ پتا جائے، تھر والوں کا قصور یہی کہ وہ کسی کے اپنے نہیں، ورنہ اپنوں کو کون بھوک اور بیماری کے رحم و کرم پر چھوڑتا ہے، آگے سنئے مسلم لیگ کا مستقبل حمزہ اور مریم کے حوالے، یعنی آگے چل کر اقتدار ن لیگ کو ملا تو میرے بچوں کے حکمراں مریم اور حمزہ، اپنے کاغذاتِ نامزدگی کے مطابق 84کروڑ اثاثوں کی مالک مریم نواز کے بارے میں صرف ان کا یہی سچ کافی کہ ’’میری بیرونِ ملک تو کیا، اندورنِ ملک بھی کوئی جائیداد نہیں‘‘، حمزہ شہباز نے بحیثیت ڈپٹی وزیراعلیٰ گزشتہ 10سالوں میں کیا تیر چلائے، وہ سب کے سامنے۔

نہ سوچیں تو جیسا کل ویسا آج، نہ سوچیں تو امیر، غریب ایک دن سب کو ہی مر جانا لیکن سوچیں تو دکھ ہی دکھ، اندھیرا ہی اندھیرا، سوچیں تو ایک طرف عوام ’’ناکوں، دھماکوں اور فاقوں‘‘ والی فلم دیکھی جا رہے، دوسری طرف بڑوں نے ’’حال بچاؤ، آل بچاؤ اور مال بچاؤ‘‘ والی فلم چلا رکھی، ایک طرف انسان جانوروں سے بھی بدتر، دوسری طرف انسان بھگوان بنے بیٹھے، ایک طرف انصاف مل نہیں رہا، دوسری طرف انصاف ہو نہیں رہا، ایک طرف کوئی بول نہیں رہا، دوسری طرف کوئی سن نہیں رہا، ایک طرف لُٹ لُٹ، بھٹک بھٹک کر بھی کسی کو عقل نہ آئی، دوسری طرف لوٹ لوٹ کر اور بھٹکا بھٹکا کر بھی جی نہ بھرا، ایک طر ف پیٹ کے لالے پڑے ہوئے اور دوسری طرف ’دا مور یو ہیو، دا میریئر یو وانٹ‘ پھر سے چیف جسٹس یاد آجائیں ’’دولت تو رحمت، اسے زحمت کیوں بنا رہے، ذرا مقامِ عبرت تو ملاحظہ ہو کہ 22کروڑ کو زحمت میں ڈال کر ’رحمت‘ سمیٹنے والوں کیلئے آج وہی رحمت زحمت بنی ہوئی‘‘۔


دنیا بھر کا جدید ‘ سیکولر ‘ لبرل اور مغربی تہذیب کا پرستار طبقہ اس قدر متعصب اور جانبدار ہے کہ اس جدید مغربی تہذیب کے ہر ادارے کی بڑی سے بڑی برائی پر چپ سادھ لیتا ہے۔ وہ اس برائی کو افراد کی بددیانتی اور چوری پر محمول بتاتا ہے‘ لیکن بحیثیت مجموعی نہ اس سسٹم کو برا کہتا ہے اور نہ اس ادارے کو جو اس سسٹم نے جنم دیا ہے۔ آج کی جدید جمہوری سیکولر‘ لبرل اور کارپوریٹ معیشت جن بنیادوں پر قائم ہے وہ 1694ء میں بنک آف انگلینڈ کے چارٹر سے جنم لینے والا سودی بینکاری نظام ہے۔ اس پورے نظام نے آکٹوپس کی طرح پوری دنیا کی حکومتوں‘ کاروبار زندگی اور معیشتوں کو گھیرے میں لیا ہوا ہے۔ ایک عام آدمی تو اس بینکاری نظام سے صدیوں پہلے معاشرے میں موجود سود خور سرمایہ داروں کے شکنجے میں تھا‘ لیکن جدید بینکاری نے سود کو سرکاری سرپرستی میں جس طرح سکہ رائج الوقت بنا کر ہر ملک کے بچے بچے سے سود وصول کرنے کا راستہ نکالا وہ اس سارے سودی نظام کے قائم کرنے والوں کی عیاری کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ یورپ جس کی تاریخ جنگوں سے عبارت ہے، جہاں پوری صدی پر محیط جنگیں بھی ہوتی رہی ہیں۔ ان جنگوں میں سے ایک جنگ ’’بڑے اتحاد کی جنگ‘‘ War of the Grand Allianceکہلاتی ہے۔ یہ آٹھ سالہ جنگ جو 1689ء میں شروع ہو کر 1697ء میں ختم ہوئی‘ فرانس کے بادشاہ لوئی15کے توسیع پسندانہ حملوں کے خلاف برطانیہ اور ولندیزی متحدہ صوبہ جاتUnited Provinces of Nether Landsکے باہمی اتحاد کے ساتھ تھی۔ اس جنگ میں انگلینڈ کو جب سرمائے کی ضرورت پیش آئی تو یہودی سرمایہ داروں کا سرخیل چارلس مونٹیگو Charles Montagueاور اس کے ساتھیوں نے 1692ء میں حکومت برطانیہ کو قرض فراہم کیا اور جس طرح آج کل آئی ایم ایف شرائط عائد کرتا ہے ویسے ہی یہ شرط عائد کی گئی کہ جو قرضہ حکومت لے رہی ہے‘ زر ضمانت کے طور پر شراب کی تیاری اور فروخت پر جو ٹیکس حاصل کیا جاتا ہے اس سے قرضے کی اصل زر اورسود ادا کیا جائے گا۔ یہ انسانی تاریخ کا پہلا سودی قرضہ تھا جو کسی حکومت نے حاصل کیا اور آج پوری دنیا اس جال میں پھنسی ہوئی ہے۔ اس قرضے کو ایک نظام میں جکڑنے کے لیے برطانوی پارلیمنٹ میں Tonnage Act 1694منظور ہوا جس کے تحت پارلیمنٹ نے جہاں بادشاہ کو شراب کے ڈرم برآمد کرنے والے جہازوں اور عام صارف کے لیے فروخت ہونے والی بوتلوں پر ٹیکس لگانے کی منظوری دی، وہیں بنک آف انگلینڈ کے قیام کی 199 سالہ منظوری بھی دی گئی یعنی 1694 سے لے کر 1892ء تک یہ ایک کارپوریشن کے طور پر کام کرے گا اور اس کے پرائیویٹ کنٹرول کو قانونی تحفظ حاصل ہو گا۔ یوں پوری برطانوی قوم کا بچہ بچہ مقروض ہو گیا اور بغیر کچھ جانے بوجھے وہ ٹیکس ادا کرنے لگا جو اس بنک کو سود کے طور پر ادا کئے جاتے تھے یعنی سرکاری ڈنڈے اور سرپرستی سے عام آدمی کو اس کی مرضی کے غیر مقروض بنایا گیا اور پھر اس کی مرضی کے بغیر اس سے سود بھی وصول کیا جانے لگا۔ اس دن سے آج تک پوری دنیا اس سودی گھن چکر میں پھنسی ہوئی ہے۔ اس کے بعد ان بینکاروں نے اس سودی معیشت کو مزید مستحکم کرنے کے لیے ایک اور منصوبے پر کام شروع کیا۔ بنک کے قیام سے پہلے دنیا کے ہر ملک میں ایک ٹکسال (Mint)ہوتا تھا جس میں سونے اور چاندی کے سکے ڈھالے جاتے تھے۔ چارلس مونٹیگو جس کو اس وقت برطانیہ نے اپنے بہت بڑے خطاب ارل آف ہیلی فیکس Earl of Halifaxسے نواز دیا تھا، یہ خطاب پوری تاریخ میں صرف چار افراد کو دیا گیا ہے اور چارلس مونٹیگو ان میں پہلا تھا اس کی زیر کفالت دنیائے سائنس کا بہت بڑا کردار آئزک نیوٹنIssac Newtonبھی تھا جس کو اس نے اپنے سرمائے کی مدد سے بہتر زندگی گزارنے کا موقع فراہم کیا۔ نیوٹن کی سوتیلی بہن کا انتقال ہوا تو اس کہانی میں ایک دلفریب و دلربا کردار کی آمد ہوئی جو نیوٹن کی بھانجی کیتھرین بارٹون Catherine Bartonتھی۔ یہ اپنے حسن و شباب ‘ ناز و انداز اور دلفریبی کی وجہ سے شمع محفل بن گئی اور پھر چارلس مونٹیگو نے اسے اپنے گھر کی نگہداشت کے لیے رکھ لیا۔ جب کہ مؤرخین اسے اس کی کنیز Mistressبتاتے ہیں۔ چارلس مونٹیگو نے اس خاتون کے رکھ رکھائو اور تہذیب و شائستگی سے مزین خوبصورتی کو بہت استعمال کیا اس نے دونوں کو لندن بھیجا جہاں نیوٹن کے سائنسی علم کی دھاک اور کیتھرین کے حسن و جمال نے تمام ارباب اختیار کو گرویدہ بنا لیا۔ ایسے میں چارلس مونٹیگو کی سفارش نے اپنا کام کر دکھایا اور فزکس کے اس سائنس دان کو ٹکسال کا سربراہ (Master of Mint)بنا دیا گیا۔ یہ تینوں لندن کے مشہور کٹ کیٹ Kit katکلب کے ممبر بھی بن گئے جو بنایا ہی اس لیے گیا تھا کہ سیاسی اور حکومتی افراد پر غلبہ حاصل کیا جائے۔یہاں سے بینکاری اور سودی نظام کے عیارانہ منصوبے کا آغاز ہوا۔ صدیوں سے انسانوں نے چاندی اور سونے کے سکوں کے درمیان ایک شرح مقرر کی تھی اور وہ یہ تھی کہ ایک سونے کا سکہ چاندی کے بیس سکوں کے برابر ہے لیکن نیوٹن نے اس شرح کو بدل دیا اور اسے ایک کے مقابلے میں 15کر دیا۔ یوں مارکیٹ میں سونا سستا اور چاندی مہنگی ہو گئی اور ان قیمتوں کو کنٹرول کرنے کے لیے حکومتی اختیار استعمال کیا گیا۔ دوسری جانب بینک آف انگلینڈ کو یہ اختیار دیا گیا کہ وہ اپنی طرف سے کاغذ کے نوٹ جاری کر سکے گا جسے Promissory Noteکہتے تھے۔ بینکوں کے پاس لوگ سونا رکھتے اور وہ اس کے بدلے میں یہ کاغذی نوٹ جاری کرتے۔ سونے اور چاندی کی قیمتوں میں ردوبدل شروع ہوا تو بازار میں کاغذ کا نوٹ سکہ رائج الوقت بننے لگا۔ ایک ایسا سکہ جس کی بظاہر کوئی قدرو قیمت نہ تھی ایک کاغذ پر دس سے لے کر پانچ ہزار تک جو چاہے لکھ دو وہی قیمت ہے جس کے بدلے کسی سے جو چاہے خرید لو۔ چالاکی ‘ عیاری ‘ مکاری‘ حسن‘ شباب اور عشوہ و ادا کے اس کھیل سے جو سودی نظام مرتب ہوا‘ آج وہ دنیائے اقتدار کا اصل حاکم ہے۔ دنیا بھر میں پینتالیس ہزار کارپوریشنیں ہیں جنہیں پانچ سو بنیادی (Core)کارپوریشنیں کنٹرول کرتی ہیں اور انہیں دنیا میں موجود بائیس بنک اسی مصنوعی ‘ جعلی ‘ کاغذی کرنسی کے ہیر پھیر سے سرمایہ فراہم کرتے ہیں، یہی کاغذی سرمایہ پارٹیوں کو الیکشن فنڈ دیتا ہے یہی بینکاری نظام ہے جو دنیا کے چور حکمرانوں کی لوٹی ہوئی دولت کو تحفظ دیتا ہے۔ یہی حکومتوں کو قرض دیتا ہے اور ان کی قوت سے عوام پر ٹیکس لگا کر زبردستی سود وصول کرواتا ہے۔ یہ نظام ڈوبتا ہے تو کروڑوں کھاتے داروں کا سرمایہ ڈوب جاتا ہے۔ صرف دس سال پہلے 2008ء میں عام لوگوں کے کئی سو ارب ڈالر ڈوب گئے اسی بددیانت ‘ چور بازار اور سود خور بینکاری نظام کی وجہ سے قلفی والے‘ ریڑھی والے ‘ ویلڈر اور دیگر لوگوں کے اکائونٹ سے اربوں روپے برآمد ہوتے ہیں اور یہ سودی نظام اس ساری چور بازاری کو راستہ بھی دیتا ہے اور ان کا تحفظ بھی کرتا ہے۔ دنیا بھر کا جدید سیکولر ‘ لبرل‘ مغربی تہذیب کا پرستار طبقہ کس قدر متعصب ہے کہ وہ ان برائیوں‘ چوریوں اور ڈاکوئوں کا ذمہ دار زرداری‘ نواز شریف‘ پنوشے‘ مارکوس کو بتاتے ہیں لیکن کوئی اس سودی نظام کو گالی نہیں دیتا۔ اگر یہ سودی بنکاری نظام نہ ہوتا تو کیا ایسے منی لانڈرنگ ہو سکتی تھی ۔ ایسے سوئس اکائونٹس کھل سکتے تھے۔ ایسے حکمران اپنی چوریاں چھپا سکتے تھے۔ لیکن کوئی سود بینکاری کو برا نہیں کہے گا کہ یہ ان کی جمہوری سیکولر‘ لبرل معاشرت کو سرمایہ فراہم کرتا ہے۔ 




ٹریفک سگنل کی خلاف ورزی پر ای چالان جب سے گھروں میں آنے شروع ہوئے ہیں لاہور کی سڑکوں پر کاریں اور موٹر سائیکلیں چلانے والے قدرے ڈسپلن میں آنا شروع ہو گئے ہیں۔

آپ رات کے تین بجے بھی کسی سڑک سے گزریں تو یہ خوشگوار حیرت ہوتی ہے کہ لال بتی پر ڈرائیور اپنی گاڑیوں کو زیبرا کراسنگ سے بھی کہیں پیچھے کھڑی کر کے اطمینان سے بیٹھے رہتے ہیں۔ جب تک ای چالان کا سلسلہ شروع نہیں ہوا تھا ڈرائیور حضرات دن دہاڑے بھی اشارہ توڑنے کی واردات کرنے سے باز نہیں آتے تھے۔ زیبرا کراسنگ کو پیدل افراد کے لیے خالی چھوڑنا تو ان کی سرشت میں سرے سے شامل ہی نہیں تھا۔

وہ کسی نے سچ کہا ہے کہ ڈنڈے سے بڑا ’’پیر‘‘ کوئی نہیں ہے۔ سزا کا خوف نہ ہو تو قانون کی پاسداری کون کرے گا۔ الیکٹرانک چالان سے پہلے اگر کبھی رات کو کسی ریڈ سگنل پر گاڑی روکنے کی ’’غلطی‘‘ ہوتی تو پیچھے سے آنے والے ہارن بجا کر آپ کی مت مار دیتے تھے۔
اب یوں لگتا ہے کہ وہ لوگ شاید شہر چھوڑ کر کہیں اور چلے گئے ہیں۔ چند دن پہلے ایک دوست ملاقات کے لیے آیا تو کہنے لگا یار رنگ روڈ پر بھی اوور اسپیڈنگ کی غلطی نہ کرنا۔ میں نے اس سے کہا ظاہر ہے وہاں پولیس والے کیمرے لگا کر بیٹھے ہوتے ہیں اس لیے احتیاط تو کرنا پڑتی ہے۔ اس نے کہا اب صورتحال تبدیل ہو گئی ہے، رنگ روڈ پر جو کیمرے لگے ہوئے ہیں وہی کافی ہیں۔ اس کا اپنا چالان انھی کیمروں کی وجہ سے ہو چکا ہے اس لیے مجھے چوکنا کرنا ضروری سمجھا۔

ای چالان کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو مجھے آسٹریا کا ایک واقعہ یاد آرہا ہے۔ میرے ایک دوست آسٹریا کے دارالحکومت ویانا سے 100کلومیٹر دور Horn’’ہارن‘‘ شہر میں رہتے ہیں۔ ’’ہارن‘‘ شہر چیک ریپبلک کی سرحد سے تھوڑے ہی فاصلے پر ہے۔ تین سال پہلے میں بیگم کے ساتھ ان کی فیملی سے ملاقات کے لیے وہاں گیا تھا۔ ان کے ہاں قیام کے بعد جب مجھے ویانا واپس آنا تھا تو انھوں نے ہم دونوں کو اپنی کار میں بٹھایا اور گھر سے 100کلومیٹر دور ایئرپورٹ پر چھوڑنے کے لیے چل پڑے۔ ’’ہارن‘‘ چونکہ زیادہ ترقی یافتہ شہر نہیں ہے اس لیے جب ہم وہاں سے نکلے تو ایک سنگل سڑک تھی جس پر ٹریفک دونوں طرف سے آ جا رہی تھی۔ سڑک اگرچہ سنگل تھی مگر نظارے اتنے ہی خوبصورت تھے جتنے یورپ کے دیگر علاقوں میں ہوتے ہیں۔

سرسبز اونچے پہاڑ، درختوں کے جھنڈ اور گندم کی فصل، سب کچھ جیسے ایک ترتیب سے چل رہا تھا۔ راستے میں ایک جگہ کافی اونچے پہاڑ پر ایک پختہ مکان نظر آیا۔ مکان صرف ایک ہی تھا اس لیے مجھے پوچھنا پڑا کہ اتنے اونچے پہاڑ پر الگ فیملی کس طرح گزارا کرتی ہو گی۔ حافظ نعیم مسکرایا اور اس نے کہا کہ فیملی ایک ہو یا زیادہ اسے کوئی پرابلم نہیں ہو گی۔ اس نے بتایا کہ اس طرح کے مکان میں تب تک فیملی شفٹ نہیں ہوتی جب تک اسے تمام سہولیات سرکار نے مہیا نہیں کر دی ہوں گی۔

ان سہولیات میں بجلی، پانی، گیس، سیوریج، فون حتیٰ کی وائی فائی بھی شامل ہیں۔ تب مجھے اپنے بڑے بڑے شہروں کے وہ پسماندہ علاقے یاد آئے جہاں سرے سے کوئی سہولت موجود ہی نہیں۔ مگر لوگ زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ان قسمت کے ماروں کی نسبت یورپ میں جانور زیادہ آرام دہ ماحول میں رہتے ہیں۔ ہمارے موجودہ وزیراعظم ہمیشہ یورپ کی مثالیں دیا کرتے ہیں۔ ان کے پیشرو بھی لاہور کو پیرس بنانے کے دعوے کرتے کرتے نیب کی تحویل میں چلے گئے۔ یورپ والوں کی خوبی یہ ہے کہ وہ ہر علاقے کو اس کی ضرورت کے مطابق ترقی دیتے ہیں۔

’’ہارن‘‘ سے ہم سنگل سڑک پر چلنا شروع ہوئے تھے کیونکہ وہاں ٹریفک کم تھی۔ سفر کٹتا گیا اور جیسے ہی ٹریفک میں کچھ اضافہ ہوا روڈ ڈبل ہو گئی۔ پہلے اکا دکا گاڑیاں تھیں، اب ان کی تعداد بڑھنا شروع ہوگئی۔ 25، تیس کلومیٹر کے بعد ہماری گاڑی اچانک موٹر وے پر چڑھ گئی۔ تب مجھے خیال آیا کہ کوئی ٹال پلازہ تو آیا نہیں جہاں پر پے منٹ کرنا پڑی ہو تو پھر یہ کس قسم کی موٹر وے ہے۔ میں نے بے اختیار پوچھ لیا، یار یہاں موٹر وے پر پیسے نہیں دینے پڑتے۔

میرا دوست میری جہالت پر ایک بار پھر مسکرایا۔ اس نے ونڈ اسکرین کی طرف اشارہ کیا اور کہا یہ دیکھویہاں ایک اسٹکر چسپاں ہے۔ وہاں واقعی ایک اسٹکر لگا ہوا تھا۔ وہ اسٹکر لگوانے کے لیے سال بھر کے 60یورو دینا پڑتے ہیں۔ اگر کوئی کار اس اسٹکر کے بغیر موٹر وے پر چڑھے تو اسے 600 یورو جرمانہ دینا پڑتا ہے۔ اس نے کہا مجھے بتاؤ کہ سال کے 60یورو دینا ٹھیک ہے یا نہ دے کر دس گنا جرمانہ ادا کرنا درست۔ معاشرہ کوئی بھی ہو، اس میں بسنے والی قوم جو بھی ہو اسے قانون پر عملدرآمد پر اسی طرح مجبور کیا جا سکتا ہے۔

ڈرائیوروں کو ڈسپلن پر مجبور کرنے کے لیے ای چالان نقطہ آغاز ہے۔ ڈی آئی جی ٹریفک پولیس کیپٹن مبین شہید نے لائن اور لین کی پابندی کرانے کے لیے بڑی محنت کی تھی۔ان کی خواہش تھی کہ لاہور میں ٹریفک کے مسائل سے جان چھڑائی جائے۔ وہ زندہ ہوتے تو آج اس تھوڑی بہت بہتری پر یقیناً بہت خوش ہوتے۔ درختوں کی قربانی دے کر سڑکیں کشادہ کرنے یا ٹریفک پولیس کے اہلکاروں کی بھرمار سے ٹریفک بہتر نہیں کی جا سکتی۔

ابھی لین اور لائن کی خلاف ورزی اور اووراسپیڈنگ پر بھی ای چالان کا سلسلہ شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ ای چالان سے تو تو، میں میں کی تکرار ختم ہوئی اور رشوت کا بازار بھی بند ہو گیا۔ یہ سلسلہ پورے ملک تک بڑھانے کی ضرورت ہے۔ لاہور سے آغاز ہو گیا، کراچی اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں کو بھی یہ ’’سہولت ‘‘ دینے کی ضرورت ہے۔ ای چالان کا کمال سب جگہ پہنچنا چاہیے۔

ای چلان ایک ایسا ڈنڈا ہے جو نظر تو نہیں آتا مگر اس کا وار بہت کاری ہے۔

صحت اور انصاف بھی ہمارے مسئلے ہیں‘ دنیا دس ہزار سال کی تحریری تاریخ میں اس نتیجے پر پہنچ چکی ہے معاشرے میں جب تک انصاف نہیں ہو تا اور لوگ جسمانی اور ذہنی لحاظ سے صحت مند نہیں ہوتے ملک اور معاشروں میں اس وقت تک استحکام نہیں آتا مگر ہمارے ملک میں بدقسمتی سے یہ دونوں شعبے زوال پذیر ہیں۔

سرکاری اسپتالوں‘ شفاء خانوں اور ڈسپنسریوں کی حالت یہ ہے راولپنڈی کے ہولی فیملی اسپتال میں26 نومبر 2012ء کو دو نومولود بچوں کو چوہے کاٹ گئے‘ اس حادثے میں ایک بچہ جاں بحق جب کہ دوسرا شدید زخمی ہو گیا‘نومبر 2012ء میں لاہور میں 25 افراد کھانسی کا شربت پینے سے جاں بحق ہو گئے جب کہ جنوری 2012ء میں لاہور میں دل کے 100 سے زائد مریض دوائی میں ملاوٹ کی وجہ سے ہلاک ہو گئے۔

پاکستان میں آخری ڈرگ ریگولیٹری ایکٹ 1976ء میں پاس ہوا تھا اور یہ 36 سال بعداکتوبر2012ء میں ڈاکٹر فردوس عاشق اعوان کی ان تھک محنت کے بعد دوبارہ پاس ہوا‘ آج بھی ملک کے  1206 لوگوں کے لیے ایک ڈاکٹر ‘1700 مریضوں کے لیے اسپتال کا ایک بیڈ‘1700 افراد کے لیے ایک ڈینٹسٹ اور 1667 لوگوں کے لیے ایک نرس دستیاب ہے‘ سرکاری اسپتالوں میں کاکروچ‘ چھپکلیاں‘ چوہے اور بلیاں عام پھرتی ہیں‘ ملک میں جعلی ڈاکٹروں کی بھرمار ہے۔
ملک میں ہومیو پیتھک ڈاکٹروں اور حکیموں کے نام پر ہزاروں قصاب پھر رہے ہیں اور ملک میں عام چاقو سے بچے پیدا کر دیے جاتے ہیں اور آنکھوں کے آپریشن ہو جاتے ہیں‘ صحت کا بجٹ آج بھی جی ڈی پی کا.9 0فیصد ہے اور پنجاب جیسا دس کروڑ لوگوں کا صوبہ جون2008ء سے فروری 2012ء تک وزیر صحت کے بغیر چلتا رہا اور مریض اسلام آباد کے سب سے بڑے اسپتال پمز کے کوریڈورز اور لانوں میں پڑے ہوتے ہیں اور یہ صورتحال اس وقت تک جاری رہے گی جب تک ہم اس مسئلے کی سنگینی کو نہیں سمجھیں گے۔

ہمارے پاس اس مسئلے کے تین چار حل ہو سکتے ہیں‘ پہلا حل‘ حکومت اسپتال‘ ڈسپنسریاں اور بی ایچ یو چلانے میں مکمل طور پر ناکام ہو چکی ہے چنانچہ صحت کو مکمل طور پر پرائیوٹائز کر دیا جائے‘ سرکاری اسپتالوں کو پرائیویٹ کمپنیوں کے حوالے کر دیا جائے‘ یہ کمپنیاں اسپتال بنائیں اور چلائیں‘ ملک بھر کے ڈاکٹرز اور ان کے کلینکس کے لیے ایک باڈی بنا دی جائے‘ یہ باڈی جب تک تحریری اجازت نہ دے کوئی ڈاکٹر اس وقت تک پرائیویٹ پریکٹس نہ کر سکے‘ یہ باڈی ڈاکٹروں کی تعلیم‘ تجربے اور مہارت کو دیکھ کر ان کا فیس پیکیج تیار کرے۔

یہ ہوٹلز کی طرح کلینکس کا معیار بھی طے کرے اور کڑی چھان بین کے بعد انھیں ون اسٹار‘ ٹو اسٹار‘ تھری اسٹار‘ فور اسٹار اور فائیو اسٹار کے درجوں میں تقسیم کرے‘ یہ کلینکس ان اسٹارز کے مطابق کمروں‘ آپریشن تھیٹرز‘ پیرا میڈیکل اسٹاف اور ڈاکٹروں کی فیس چارج کریں‘ یہ باڈی پرائیویٹ نرسز‘ وارڈ بوائز اور لیبارٹری ٹیکنیشنز کا معیار اور کوالیفکیشن بھی طے کرے‘ میڈیکل باڈی کے رولز ’’فکس‘‘ ہوں اور کوئی شخص ان رولز میں کسی قسم کی تبدیلی نہ کر سکے‘ میڈیکل لیبارٹریز کے لیے بھی معیار طے ہوں۔

انھیں بھی ون سے لے کر فائیو اسٹار تک کیٹگریز میں تقسیم کیا جائے اور ان کے نرخ بھی ان کیٹگریز کے مطابق طے کیے جائیں‘ ان اقدامات کے بعد ملک کے ہر شہری کی ہیلتھ انشورنس کر دی جائے‘ ملک کا ہر وہ شہری جس کے پاس شناختی کارڈ ہے یا جو بے فارم میں شامل ہے اس کی ہیلتھ انشورنس لازم ہو ‘ پاکستان کا کوئی بچہ اس وقت تک اسکول میں داخل نہ ہو سکے‘ یہ پرائمری سے لے کر یونیورسٹی تک امتحان نہ دے سکے‘ یہ اس وقت تک شناختی کارڈ‘ پاسپورٹ‘ ڈرائیونگ لائسنس اور بینک اکاؤنٹ کی سہولت حاصل نہ کر سکے جب تک اس کی ہیلتھ انشورنس نہیں ہو جاتی‘ ملک کے تمام سرکاری اور پرائیویٹ ادارے بھی اپنے ملازمین کی ہیلتھ انشورنس کے ذمے دار ہوں اور یہ ادارے جب تک بینکوں کو انشورنس سر  ٹیفکیٹ نہ دے دیں ۔

بینک ان کے ملازمین کو تنخواہ ٹرانسفر نہ کریں‘ یہ ہیلتھ انشورنس آگے چل کر ملک کے ہر شہری کو علاج معالجے کی سہولت فراہم کرے گی‘ یہ لوگ اضافی رقم کے بغیر پرائیویٹ کلینکس اور اسپتالوں میں اپنا علاج کرا سکیں گے‘ حکومت بڑی آسانی سے ادویات ساز اداروں کا معیار بھی بڑھا سکتی ہے‘ ملک کی تمام ادویات ساز کمپنیاں دوا سازی کے لیے لیبارٹریاں بناتی ہیں‘ ان کے بجٹ کا ستّر اسی فیصد حصہ ان لیبارٹریوں پر خرچ ہو جاتا ہے‘اگر چاروں صوبوں کی حکومتیں سرکاری سطح پر انٹرنیشنل اسٹینڈرڈ کی لیبارٹریاں بنا دیں اور فارماسوٹیکل انڈسٹری ان لیبارٹریوں سے فائدہ اٹھا لے تو حکومت اور فارما سوٹیکل انڈسٹری دونوں کو فائدہ ہو گا‘ ادویات کی کوالٹی کا ایشو بھی حل ہو جائے گا اور حکومت بھی معیار پر نظر رکھ سکے گی۔

انصاف کا مسئلہ بھی اسی طرح حل کیا جا سکتا ہے‘ ملک میں خاندانی لڑائیاں یا شخصی انا‘ پولیس کی غلط رپورٹنگ‘ وکلاء کے تاخیری حربے اور عدالتوں کی کمی یہ چار وجوہات ہیں جن سے انصاف کا عمل متاثر ہو رہا ہے لیکن ہم بڑی آسانی سے یہ چاروں مسئلے حل کر سکتے ہیں‘ حکومت ملک کے تمام علاقوں میں ثالثی عدالتیں بنا دے‘ یہ علاقے کے معزز لوگوں پر مشتمل ہوں اور پولیس باہمی جھگڑوں کے تمام مقدمے ان کے حوالے کر دے‘ یہ لوگ  فریقین کو سنیں اور ان کے درمیان صلح کروا دیں‘ قوانین میں تبدیلی کی جائے‘ قانون میں سے شک کی بنیاد پر گرفتاری کی تمام دفعات نکال دی جائیں‘ پولیس کے انڈر لاء برانچ بنائی جائے،

اس برانچ میں وکلاء بھرتی کیے جائیں‘ یہ برانچ مقدمات اور ملزمان کو عدالت میں پیش کرنے کی ذمے دار ہو تا کہ عام پولیس کچہری کے عمل سے باہر ہو جائے اور یہ صرف لاء اینڈ آرڈر اور تفتیش پر توجہ دے سکے‘ عدالت جس مقدمے میں ملزمان کو بری کر دے پولیس ڈیپارٹمنٹ وہ مقدمات بنانے اور تفتیش کرنے والے پولیس افسروں کی اے سی آر روک لے اور اس کا ان کی پروموشن پر اثر ہو‘ ملک میں وکلاء عدالتیں بنائی جائیں‘ عدالتیں سماعت سے قبل مقدمے وکلاء عدالتوں میں بھجوا دیں‘ وہاں فریقین کے وکلاء بیٹھ کر سمجھوتے کی کوشش کریں۔

اگر دونوں میں صلح ہو جائے تو وکلاء مقدمہ واپس لے لیں‘ اس سے عدالت‘ موکل اور وکلاء تینوں کا وقت بچے گا‘ عدالت ہر مقدمے کی ’’کاسٹ‘‘ طے کرے اور جو فریق مقدمہ ہار جائے یہ کاسٹ اس سے وصول کی جائے‘ اس سے مقدمے بازی کے رجحان میں کمی آ جائے گی‘ مقدمات کی مدت طے کر دی جائے‘ عدالتوں کو پابند بنایا جائے یہ ایک سے چھ ماہ کے اندر مقدمے کا فیصلہ کریں ‘ ملک میں سیکڑوں کی تعداد میں آنریری جج تعینات کیے جائیں‘ یہ جج تنخواہ اور دفتر کے بغیر ہوں‘ یہ وکیل ہوں یا ریٹائر جج ہوں‘ عدالتیں معمولی نوعیت کے مقدمات ان کو ’’ریفر‘‘ کر دیں۔

جیلوں کے اندر سول اور سیشن جج تعینات کیے جائیں‘ یہ جیل جج کہلائیں اور یہ جیلوں میں بند ملزموں اور مجرموں کے بارے میں فیصلے کریں‘ یہ معمولی جرائم میں بند مجرموں کو رہا کر سکیں‘ یہ مجرموں کی سزا میں کمی اور اضافہ کر سکیں اور یہ طویل مدت سے جیل میں بند مجرموں کی ضمانت لے سکیں‘ جیلوں کے اندر اسکول‘ ووکیشنل ادارے اور زبانیں سکھانے کے ادارے بنائے جائیں‘ یہ ادارے ملزموں اور مجرموں کو تعلیم دیں‘ فرانس کی بڑی کمپنیوں نے جیلوں میں اپنے گودام اور چھوٹی ورکشاپس بنا رکھی ہیں‘ یہ کمپنیاں اپنی مصنوعات جیل بھجوا دیتی ہیں۔

قیدی یہ مصنوعات پیک کرتے ہیں اور یہ مصنوعات جیل سے براہ راست مارکیٹ چلی جاتی ہیں‘ اس سے قیدیوں کو روزگار مل جاتا ہے‘ کمپنیوں کو سستا ہیومین ریسورس دستیاب ہو جاتا ہے اور جیل کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے‘ حکومت پاکستان بار کونسل کے ساتھ مل کر وکلاء کی فیس بھی طے کر دے‘ وکلاء کو بھی ون سے فائیو تک اسٹار میں تقسیم کیا جائے اور ان کی فیسیں ان اسٹارز کے مطابق طے کی جائیں کیونکہ ملک میں اس وقت مظلوم کو انصاف حاصل کرنے کے لیے اپنا رہا سہا اثاثہ وکیل کے نام کرنا پڑتا ہے اور یہ معاشی مجبوری بھی انصاف کے راستے کی بہت بڑی رکاوٹ ہے۔

ہمیں ملک میں سزاؤں کو بھی ’’ری وزٹ‘‘ کرنا چاہیے‘ ہمیں جیلوں کے بجائے جیبوں پر دباؤ بڑھانا ہو گا‘ یورپ میں مجرموں کو جیل بھجوانے کے بجائے بھاری جرمانے کیے جاتے ہیں‘ ہم بھی جرمانے پر جا سکتے ہیں‘ ہم قتل‘ آبروریزی‘ ڈکیتی اور فراڈ کے علاوہ باقی جرائم کو جرمانے پر شفٹ کر دیں‘ عدالت مجرموں کو لاکھوں روپے جرمانے کرے۔

ان کی جائیداد ضبط کر لے اور ان کے دو تین سال کے لیے شناختی کارڈ‘ پاسپورٹ اور ڈگریاں ضبط کر لے‘ یورپ میں چھوٹے جرائم پر سوشل سروس لی جاتی ہے‘ ہم بھی چھوٹے مجرموں کو بس اسٹاپ‘ ریلوے اسٹیشن‘ پبلک باتھ رومز کی صفائی‘ ٹریفک پولیس‘ بچوں کو پڑھانے‘ سڑکوں پر جھاڑو دینے‘ اولڈ پیپل ہوم میں کام کرنے یا ایدھی فاؤنڈیشن میں خدمات سرانجام دینے کی سزا دے سکتے ہیں اور ہم بے گناہوں کے قاتلوں کو اس وقت تک مظلوم خاندان کی مالی مدد کرنے کی سزا دے سکتے ہیں جب تک یہ خاندان اپنے قدموں پر کھڑا نہیں ہو جاتا اور ہم مصر کی طرح پولیس اسٹیشنز میں پولیس اسپتال بھی بنا سکتے ہیں تا کہ پولیس کو ان تمام کیسز میں اسپتالوں کے دھکے نہ کھانا پڑیں جن میں انھیں میڈیکل رپورٹ کی ضرورت ہوتی ہے‘ یہ تمام تجاویز پریکٹیکل ہیں۔

یورپ کے اکثر قصبوں میں دلچسپ روایت چلی آ رہی ہے‘ قصبوں کی کافی شاپس اور ریستورانوں میں دیوار پر وائیٹ بورڈ نصب ہوتا ہے‘ ریستوران اور کافی شاپ کے گاہک اپنے لیے چائے‘ کافی اور کھانا منگواتے ہوئے ویٹر کو ایک چائے وائیٹ بورڈ کے لیے‘ ایک کافی وائیٹ بورڈ کے لیے یا فلاں کھانا وائیٹ بورڈ کے لیے بھی آرڈر کر دیتے ہیں‘ ویٹر ان کا آرڈر انھیں سرو کر دیتا ہے اور اضافی کھانے‘ چائے یا کافی کی ’’سلپ‘‘ وائیٹ بورڈ پر چپکا دیتا ہے‘لوگ کھانا کھاتے ہیں‘ چائے کافی پیتے ہیں اور آخر میں بل کے ساتھ اس کھانے‘ چائے اور کافی کی ادائیگی بھی کر دیتے ہیں۔

کھانے‘ کافی اور چائے کی یہ چٹیں قصبے کے ان لوگوں کے لیے ہوتی ہیں جو چائے‘ کافی یا کھانا ’’ افورڈ‘‘ نہیں کر سکتے‘ یہ غریب لوگ بھی عام گاہک کی طرح ریستوران یا کافی شاپ میں آتے ہیں‘ وائیٹ بورڈ کے پاس رکتے ہیں‘ اپنی مرضی کی چٹ اتارتے ہیں‘ میز پر آ کر بیٹھتے ہیں‘ ویٹرکو وہ چٹ تھما دیتے ہیں اور ویٹر عام گاہکوں کی طرح انھیں بھی احترام کے ساتھ کھانا‘ چائے اور کافی سرو کر دیتے ہیں‘ یہ لوگ اگر وائیٹ بورڈ سے خود چٹ نہ اتارنا چاہیں تو یہ ویٹر کے کان میں سرگوشی کر دیتے ہیں ’’ مجھے وائیٹ بورڈ کی ایک کافی دے دو‘‘ اور ویٹر وائیٹ بورڈ سے خود چٹ اتارکر انھیں کافی‘ چائے اور کھانا دے دیتے ہیں‘ یہ بھوکوں کو کھانا ‘ چائے اور کافی پلانے کا مہذب ترین طریقہ ہے‘ ہم بھی ملک میں یہ طریقہ رائج کر سکتے ہیں۔

پاکستان کی 60 فیصد آبادی غریب ہے‘ ان میں سے نصف انتہائی غربت کا شکار ہے‘ یہ لوگ کھانے پینے‘ دواء دارو اور کپڑوں جوتوں تک سے محروم ہیں‘ یہ لوگ صرف غریب نہیں ہیں یہ مسکین بھی ہیں‘ غربت اور مسکینی میں فرق ہوتا ہے‘ مسکین گزارہ نہیں کر سکتا جب کہ غریب رو دھو کر گزارہ کر لیتے ہیں‘ ہم بحیثیت معاشرہ ان مسکینوں کے ذمے دار ہیں اور ہم میں سے ہر صاحب استطاعت شخص کسی نہ کسی حد تک ان مسکینوں اور غریبوں کی مدد بھی کرتا ہے۔
پاکستان چیریٹی کرنے والے دنیا کے پانچ بڑے ممالک میں شمار ہوتا ہے لیکن اس کے باوجود ملک میں مسکینوں اور غریبوں کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے‘ اس کی وجہ سسٹم ہے‘ ہم لوگ چیریٹی کرتے ہیں لیکن یہ چیریٹی آرگنائزڈ نہیں ہوتی چنانچہ ملک سے غربت اور مسکینی ختم نہیں ہو رہی‘ ہمیں اس کے لیے دو سطح پر کام کرنا ہو گا‘ پہلی سطح فوری امداد ہے‘ ہمیں مسکینوں کے لیے کھانے پینے‘ سودا سلف‘ ادویات اور کپڑوں کا فوری بندوبست کرنا چاہیے‘ ہم اس سلسلے میں یورپ کے ماڈل کی مدد لے سکتے ہیں۔

ہم ملک کے تمام چھوٹے بڑے ریستورانوں‘ چائے خانوں‘ پرچون کی دکانوں‘ جوتوں کی شاپس‘ کپڑوں‘ درزی خانوں اور سبزی کے ٹھیلوں پر وائیٹ بورڈ لگوا دیں‘ ہم میں سے خریداری کے لیے جانے والے لوگ اپنی استطاعت کے مطابق وہاں اضافی رقم جمع کروا دیں‘ دکاندار وائیٹ بورڈ پر اضافی رقم کی چٹ لگا دے‘ مسکین اور غریب لوگ آئیں اور دکاندار سے ایک دن کی ضرورت کا سامان لے جائیں‘ یہ دکانیں اور ٹھیلے محلوں میں ہوں گے‘ دکاندارضرورت مندوں کو ذاتی طور پر جانتے ہوں گے‘ اس سے فراڈ کے امکان کم ہو جائیں گے ہاں البتہ چائے اور کھانا کوئی بھی شخص کھا سکے گا‘ کھانے اور چائے کے لیے ریستوران کے ملازمین ایک خصوصی اہتمام کریں‘ یہ مسکینوں اور غریبوں کو واش روم لے کر جائیں۔

ان کے ہاتھ اور منہ دھلوائیں‘ کنگھی کروائیں اور اس کے بعد انھیں ڈائننگ ٹیبل پر بٹھا کر کھانا کھلائیں‘ اس سے ان لوگوں کو ہاتھ‘ منہ دھونے‘ صاف ستھرا رہنے اور میز پر بیٹھ کر کھانا کھانے کی عادت بھی ہو جائے گی اور یہ بہت بڑا انقلاب ہو گا‘ مخیر حضرات ادویات کی دکانوں پر بھی اضافی پے منٹ کر سکتے ہیں‘ کیمسٹ حضرات ضرورت مندوں کو اس پے منٹ سے مفت ادویات دے سکتے ہیں تاہم یہ خصوصی اہتمام کریں‘ یہ ضرورت مند مریضوں کو صرف ایک یا دو دن کی دوا دیں‘ سیرپ‘ انجیکشن‘ کیپسول اور گولی کی پیکنگ پھاڑ دیں یا ڈھکن کی سیل توڑ دیںتا کہ مریض یا جعلی مریض یہ ادویات بازار میں فروخت نہ کر سکیں۔

اس سے مسکین مریضوں کو ادویات بھی مل جائیں گی اور مخیر حضرات کی امداد بھی صحیح جگہ پر لگ جائے گی‘ کپڑوں کے معاملے میں اہل خیر کپڑا خرید کر درزیوں کے حوالے کر دیں یا پھر بوتیکس کو امدادی رقم دے دیں‘ درزی مسکینوں کے ناپ کے مطابق کپڑے سی کر دیں اور بوتیکس کے مالکان ضرورت مندوں کو لیبل اتار کر کپڑے دیں‘ اس سے بھی فراڈ کم ہو جائے گا اور ضرورت مندوں کی باقاعدہ مدد بھی ہو جائے گی۔

ہمیں دوسری اسٹیج پر مسکینوں کو غریبوں کی فہرست اور غریبوں کو لوئر مڈل کلاس میں لانے کے لیے کام کرنا ہو گا‘ ملک کے تمام قصبوں اور شہروں کے مخیر حضرات اپنی اپنی سطح پر روزگارا سکیمیں بنا سکتے ہیں‘یہ فنڈ جمع کریں‘ سروے کریں‘ علاقے میں کتنے لوگ مسکین اور غریب ہیں‘ یہ اسٹڈی کریں ان لوگوں کا خاندانی پیشہ کیا تھا کیونکہ غربت اور مسکینی کا پیشوں کے ساتھ گہرا تعلق ہوتا ہے۔

معاشرے میں جب بھی کوئی پیشہ دم توڑتا ہے تو یہ بیسیوں خاندانوں کو غریب کر جاتا ہے‘ مثلاً آج سے چوبیس سال پہلے پاکستان کے ہرشہر میں تانگے ہوتے تھے‘ یہ تانگے شہروں کے بیسیوں خاندانوں کا ذریعہ روزگار تھے‘ یہ ختم ہوئے تو یہ سیکڑوں ہزاروں خاندانوں کو غریب اور مسکین بنا گئے‘ ملک میں اسی طرح موچیوں‘ نائیوں اور ترکھانوں کا فن زوال پذیر ہوا‘ قصبوں میں ڈھول اور باجوں والے ہوتے تھے‘ اسٹریٹ تھیٹرز ‘ مداری اور اسٹریٹ سرکس سے بھی ہزاروں لوگ وابستہ ہوتے تھے‘ گلیوں اور محلوں میں چائے خانے ہوتے تھے۔

یہ چائے خانے بھی ختم ہو گئے‘ شہروں سے کھوتی ریڑھی بھی ختم ہو گئی اور چنے اور بھٹے والے بھی بے روزگار ہو گئے‘ سوئیاں بنانے‘ اچار چٹنی اور مربے والے بھی بے روزگار ہوگئے اور تنور والے بھی غربت میں چلے گئے‘ یہ تمام فن شہر بھر کا روزگار ہوتے تھے‘ قصبوں اور شہروں کے مخیر حضرات یہ فن دوبارہ زندہ کر سکتے ہیں‘ ہم سب کے گھروں میں روٹی پکتی ہے‘ ہم اگر ایک روٹی پر خرچ ہونے والی توانائی‘ وقت اور سرمائے کا تخمینہ لگائیں تو یہ بازار سے ملنے والی روٹی سے دوگنی اور تین گنا مہنگی نکلے گی‘ ہمارے مخیر حضرات اگر ہر محلے میں تنور لگوائیں‘ یہ تنور مسکین فیملیوں کو دے دیں اور یہ فیصلہ کر لیں تمام لوگ ان تنوروں سے روٹی خریدیں گے تو چند ماہ میں قصبے کے سیکڑوں لوگ مسکینی سے نکل آئیں گے‘ ہم ان تنوروں پر چولہے رکھوا کر چپاتی بھی بنوا سکتے ہیں۔

پراٹھے بھی‘ نان بھی اور مولی اور ساگ والی روٹیاں بھی۔ مخیر حضرات شہر میں موچیوں کی گلی آباد کرا سکتے ہیں یا چھوٹا سا موچی بازار بنوا سکتے ہیں اور یہ فیصلہ کر لیں قصبے کا ہر خاندان ہر مہینے ان سے ایک جوتا خریدے گا‘ بڑے شہروں اور بیرون ملک سے آنے والے لوگ جوتوں کے نئے ڈیزائن لے آئیں اور موچیوں کو یہ ڈیزائن کاپی کے لیے دے دیں‘ قصبے کے لوگ فیصلہ کر لیں قصبے کی ہر شادی اور ہر تقریب میں صرف اور صرف مقامی ڈھولچی ہی ڈھول بجائیں گے۔

قصبے یا شہر میں ہر ہفتے کی شام اسٹریٹ تھیٹرز کا بندوبست کیا جائے‘ یہ تھیٹر سرکس‘ مداری تماشا‘ گانے بجانے اور جمناسٹک کے کھیلوں پر مشتمل ہو‘ اس سے قصبے اور شہر بھر کو تفریح بھی ملے گی اور ان پیشوں سے وابستہ لوگوں کے چولہے بھی جلنے لگیں گے‘ پاکستان میں صدیوں سے چائے خانوں کی روایت چلی آ رہی تھی‘ ملک کے تمام شہروں اور قصبوں میں درجنوں چائے خانے ہوتے تھے‘ لوگ شام کے وقت ان چائے خانوں میں بیٹھ جاتے تھے۔

گپ لگاتے تھے‘ ریڈیو سنتے تھے اور تاش اور شطرنج کھیلتے تھے‘ یہ چائے خانے تفریحی اور سوشل گیدرنگ کا بہت بڑا ذریعہ بھی ہوتے تھے اور شہر کے غریبوں کی آمدنی کا بھی‘ یہ چائے خانے اب ختم ہو گئے ہیں‘ شہر کے مخیر حضرات کو ہر گلی‘ ہر محلے میں ایسے چائے خانے بنوانے چاہئیں‘ میونسپل کمیٹیاں اور سیاستدان بھی یہ ’’ اینی شیٹو‘‘ لے سکتے ہیں‘ مخیر حضرات قصبوں کے انتہائی غریب خاندانوں کے بچوں کے لیے ووکیشنل ٹریننگ کا بندوبست بھی کر سکتے ہیں‘ یہ اس سلسلے میں سرکاری اسکولوں کی مدد لے سکتے ہیں‘ ہمارے سرکاری اسکول دو بجے کے بعد بند ہو جاتے ہیں۔

مخیر حضرات ان اسکولوں میں شام چار بجے سے آٹھ بجے تک ووکیشنل کلاسز شروع کرا دیں‘ ان کلاسز میں مسکین اور غریب خاندانوں کے بچوں اور خواتین کو مختلف کام سکھائے جائیں‘ مخیر حضرات ’’اخوت‘‘ کی طرح چھوٹے قرضوں کی اسکیمیں بھی شروع کر سکتے ہیں‘ یہ قرضے صرف علاقے کے لوگوں کو دیے جائیں۔

ان کو چھوٹے چھوٹے کاروبار کرائے جائیں تاکہ یہ اپنے قدموں پر کھڑے ہو سکیں‘ شہر کے مزدوروں‘ ترکھانوں‘ لوہاروں اور مستریوں کو دس‘ دس پندرہ پندرہ دنوں کی جدید ٹریننگ دلائی جائے اور یہ فیصلہ کیا جائے شہر یا قصبے کی تمام تعمیرات انھیں لوگوں سے کرائی جائے گی تاہم شہر بھر کے لیے ان کے ریٹس ضرور طے کر دیے جائیں ‘ شہر اور قصبے کے اندر بگھی یا جدید طرز کے تانگے چلائے جائیں‘ اس سے پلوشن بھی کنٹرول ہو گا۔

تیل اور گیس کی بچت بھی ہو گی اور روزگار کے نئے ذرایع بھی پیدا ہوں گے‘ اگر یورپ کے شہروں میں تانگے اور بگھیاں چل سکتی ہیں تو ہم ایسا کیوں نہیں کر سکتے اور شہر کے تمام مخیر حضرات اپنی دکانوں‘ گھروں اور ورکشاپس پر غریب اور مسکین خاندانوں کے بچوں کو نوکری دیں‘ یہ ان کی تعلیم کا بندوبست بھی کریں‘ انھیں کوئی ہنر بھی سکھائیں اور ان کی تنخواہ کا بندوبست بھی کریں‘ اس سے بھی غربت کم ہو جائے گی۔

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget