اکتوبر 2018

حنیف خالد تخلیقی اور شگفتہ جملے لکھنے میں مہارت رکھتے ہیں۔ ان کے جملوں میں حکمت کی باتیں بھی ہوتی ہیں، طنز اور شگفتگی بھی ملتی ہے، مگر گندی زبان، گندا لہجہ اور گندا ایکسپریشن آپ کو کبھی نہیں ملے گا جبکہ بعض اینکر کے جملے تخلیقی کم اور گالی گلوچ کے حامل زیادہ ہوتے ہیں۔ فرعونیت ہماری سیاست اور صحافت میں در آئی ہے، دفع کریں یہ بات بھی کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ہم سب کو اللہ سے ڈرتے رہنا چاہیے اور اس مقبولیت کی دعا کرنا چاہیے جو آپ کے قلم سے نکلے ہوئے خوبصورت جملوں کے صدقے میں آپ کو ملےکہ بازاری جملوں کی داد صرف ’’بازار‘‘ ہی سے مل سکتی ہے۔ میں آج آپ کو حنیف خالد کے چند خوبصورت جملے سناتا ہوں، مجھے یقین ہے آپ کوبھی پسند آئیں گے! یہ جملے بڑھاپے کے بارے میں ہیں، جو نوجوان بھی پڑھ سکتے ہیں!

٭ بڑھاپا پوچھ کر نہیں آتا اور نہ دھکے دینے سے جاتاہے۔
٭بڑھاپا مشرق میں مرض اور مغرب میں فراغت کو انجوائے کرنے کا اصل وقت سمجھا جاتا ہے۔
٭بڑھاپے میں دانت جانے لگتے ہیں اور عقل آنے لگتی ہے۔اولاد اور اعضاء جواب دینے لگتے ہیں۔
٭بیوی اور یادداشت کا ساتھ کم ہونے لگتا ہے۔
٭بڑھاپا آپ کے بڑھاپے کا ساتھی ہے، مرتے دم تک ساتھ نبھاتا ہے۔
٭بڑھاپے میں لڑکیاں انکل کہیں تو مائنڈ نہ کریں، ان کے کہنے سے کیا ہوتا ہے۔
٭انسان جرم اور اپنا بڑھاپا بہت مشکل سے قبول کرتا ہے۔
٭بچپن دوسروں کی دلجوئی اور خوشی، جوانی اپنے لئے اور بڑھاپا ڈاکٹروں کی مالی مدد کے لئے ہوتا ہے۔
٭بڑھاپا بے ضرر ہوتا ہے، اس عمر میں شادی نہیں کرنا چاہیے۔
٭اگر آپ کے منہ میں دانت بچ گئے ہیں تو تنہائی میں غم بھلانے کے لئے سیٹی بجائیں، بتیسی اگر ہے تو رسک نہ لیں ورنہ بتیسی باہر آ سکتی ہے۔ سیٹی بجانے سے پہلے ارد گرد نظر بھی دوڑا لیں، کوئی خاتون قریب سے نہ گزر رہی ہو۔
٭بڑھاپے میں اگر اولاد آپ کی خدمت کرتی ہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ نے ان کی تربیت اور اپنی لائف انشورنس پر پورا دھیان دیا ہے۔
٭مرد کبھی بوڑھا نہیں ہوتا۔ یہ ایک نہیں ہزاروں بوڑھوں کا قول ہے۔
٭بوڑھے ہونے پر ضرور بوڑھا دکھائی بھی دینا، کس کتاب میں لکھا ہے؟
٭ہر بوڑھے میں ایک بچہ اور جوا ن بھی چھپا ہوتا ہے۔
٭اچھا خاندان اور اچھی حکومت ہمیشہ اپنے بوڑھوں کا خیال رکھتی ہے۔
٭بوڑھے نہ ہوتے تو چشموں اور دانتوں کی ’’انڈسٹری‘‘ مکمل تباہ ہو گئی ہوتی۔
٭وہ یقین کریں نہ کریں مگر آپ پریشان نہ ہوں عورتیں بھی بوڑھی ہوتی ہیں۔
٭دنیا نہ چل پاتی، اگر بوڑھے ہونے کا رواج نہ ہوتا۔
٭دنیا میں سب سے آسان کام دادا، دادی، نانا ، نانی بننا ہوتا ہے، کیونکہ اس میں آپ کا کوئی کردار نہیں ہوتا۔
٭بچپن میں ہم ٹیسٹ دیا کرتے تھے، جوانی میں ٹیسٹ لیا کرتےتھے، اب ڈاکٹر ہمارے لئے ٹیسٹ لکھ رہے ہیں۔
٭ہر عمر رسیدہ کیلئے مفت مشورہ ہے کہ دنیا کو انجوائے کرو قبل اس کے کہ دنیا ہمیں انجوائے کرنے لگے۔

اور آخر میں کسی نامعلوم شاعر کی لاجواب نظم۔

ابلیس کا اعتراف
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کرلوں
تو نے جس وقت یہ انسان بنایا یارب
اس گھڑی مجھ کو تو اک آنکھ نہ بہایا یا رب
اس لئے میں نے سر اپنا نہ جھکایا یا رب
لیکن اب پلٹی ہے کچھ ایسی ہی کایا یا رب
عقل مندی ہے اسی میں کہ میں توبہ کرلوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کرلوں
ابتدا میں تھی بہت نرم طبیعت اس کی
قلب و جاں پاک تھے شفاف تھی طینت اس کی
پھر بتدریج بدلنے لگی خصلت اس کی
اب تو خود مجھ پہ مسلط ہے شرارت اس کی
اس سے پہلے کہ میں اپنا ہی تماشاکر لوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں
بھر دیا تو نے بھلا کونسا فتنہ اس میں
پکتا رہتا ہے ہمیشہ کوئی لاوا اس میں
ایک اک سانس ہے اس صورت شعلہ اس میں
آگ موجود تھی کیا مجھ سے زیادہ اس میں
اپنا آتش کدۂ ذات ہی ٹھنڈا کر لوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو میں سجدہ کر لوں
اب تو یہ خوں کے بھی رشتوں سے اکڑ جاتا ہے
باپ سے بھائی سے بیٹے سے بھی لڑ جاتا ہے
جب کبھی طیش میں ہتھے سے اکھڑ جاتا ہے
خود میرے شر کا توازن بھی بگڑ جاتا ہے
اب تو لازم ہے کہ میں خود کو ہی سیدھا کرلوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کرلوں
میری نظروں میں تو بس مٹی کا مادھو تھا بشر
میں سمجھتا تھا اسے خود سے بہت ہی کمتر
مجھ پہ پہلے نہ کھلے اس کے سیاسی جوہر
کان میرے بھی کترتا ہے یہ قائد بن کر
شیطنت چھوڑ کے میں بھی یہی دھندا کر لوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کرلوں
کچھ جھجکتا ہے، نہ ڈرتا ہے، نہ شرماتا ہے
نت نئی فتنہ گری روز ہی دکھلاتا ہے
اب یہ میرے بہکاوے میں کب آتا ہے
میں برا سوچتا رہتا ہوں یہ کرجاتا ہے
کیا ابھی اس کی مریدی کا ارادہ کرلوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کرلوں
اب جگہ کوئی نہیں میرے لئے دھرتی پر
میرے شر سے بھی سوا ہے یہاں انسان کا شر
اب لگتا ہے یہی فیصلہ مجھ کو بہتر
اس سے پہلے کہ پہنچ جائے وہاں سوپر پاور
میں کسی اور ہی سیارے پہ قبضہ کرلوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کر لوں
ظلم کے دام بچھائے ہیں نرالے اس نے
نت نئے پیچ مذاہب میں ہیں ڈالے اس نے
کر دیئے قید اندھیروں میں اُجالے اس نے
کام جتنے تھے میرے سارے سنبھالے اس نے
اب تو میں خود کو ہر اک بوجھ سے ہلکا کرلوں
سوچتا ہوں کہ اب انسان کو سجدہ کرلوں

ایک تکلیف دہ موازنہ وئی فرنگیوں کو لاکھ برا بھلا غاصب، عیار،مکار کہے لیکن سچی بات ہے گورننس کی تمیز گورے کو ہی تھی کہ 90سال 1857ء تا 1947ء 90سال میں جہالت اور پسماندگی میں غرق برصغیر کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔سیاسی نظام سے عدالتی و انتظامی نظام تک، نہری نظام سے کئی نئے شہروں تک، میڈیکل کالجز سے زرعی کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں تک، ’’بمبمے‘‘یعنی ہینڈپمپ سے ریلوے اور ماچس تک، جدید منظم فوج سے لاء اینڈ آرڈر تک کمال ہی کمال ہے ۔رٹ تھی ایسی زبردست کہ ہندوئوں کے روحوں سے سَتّی کی بے رحم رسم اکھاڑ پھینکی، برہمنوں اور مسلمان اشرافیہ کو اس کی عدلیہ پر بڑی خار تھی کہ اچھوت اور کمی کمین بھی انہیں عدالتوں میں گھسیٹ سکتے ہیں۔حرام خور برہمن نے ریل کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کیا کہ اس میں شودر بھی برہمن کے برابر بیٹھ سکتا ہے لیکن گورے نے جو کیا ڈٹ کر کیا اور خوب کیا ..... ہم سے کہیں بہتر کیا کہ آج نہ وہ پولیس نہ عدالتیں نہ ریلوے نہ نہری نظام نہ ’’کمپنی باغ‘‘ کہ باغوں کیا ہم نے تو قبرستانوں پر قبضے شروع کر دیئے۔کوئی ہے جو قسم اٹھا کر کہہ سکے کہ آج کا گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی اتنے ہی عالیشان تعلیمی ادارے ہیں جتنے کبھی تھے۔میں نے کہیں نہیں پڑھا کہ تب وکلاء ججوں پر اس طرح چڑھ دوڑتے تھے

،طلبہ اساتذہ کے گریبان پکڑتے تھے اور ڈاکٹرز اسی طرح مریضوں کو’’گاہکوں‘‘ کی طرح ٹریٹ کرتے تھے۔ حقیقت یہ کہ ہم نے ہمارے ساتھ اس سے کہیں برا کیا جتنا گورے نے کیا لیکن بہرحال ’’آزادی‘‘ بڑی بات ہے ۔ ’’اپنوں‘‘ کے ہاتھوں برباد ہونا غیروں کے ہاتھوں آباد ہونے سے کہیں بہتر ہے ۔ان لاکھوں کو کیا کہیں جو آزاد وطن چھوڑ کر سابق آقائوں کے ملکوں کی شہریت والی ’’غلامی‘‘ پر ناز کرتے ہیں۔محبت پاکستان سے لیکن شہریت انگلستان تا امریکہ ،کینیڈا، آسٹریلیا کی۔ جائیدادیں بھی وہیں، اولادیں بھی وہیں اور بضد اس بات پر کہ ’’یہ وطن ہمارا ہے، ہم ہیں پاسباں اس کے‘‘ تضادات کے یہ مائونٹ ایورسٹ کیوں؟ فرق کیا ہے ؟تب’’ رول آف لاء‘‘ تھا، اب ’’رول آف دی رولر‘‘ ہے ورنہ ہمارا وزیر باتدبیر یہ نہ کہتا کہ اگر وزیراعظم آئی جی پولیس نہیں بدل سکتا تو الیکشن کی کیا ضرورت؟ حضور! پروسیجرز، قواعدوضوابط، اصول قانون بھی کوئی شے ہے کہ مادر پدر آزاد ہو کر تو کائنات نہیں چل سکتی، ملک کیسے چلے گا؟ لمبی کہانی ہے جسے سمجھنے کیلئے ایک چھوٹا سا واقعہ عرض ہے ۔یہ 1930تا 35ء کی درمیانی کہانی ہے ۔لیجنڈپطرس بخاری تب پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی کے چیئرمین تھے جب فیض احمد فیض جیسا لیجنڈ انہیں ملنے گیا۔وہاں ایک ضخیم فائل پر نظر پڑی جس پر جلی حروف میں لکھا تھا ʼʼOFFICE CATʼʼ فیض صاحب یہ عنوان دیکھ کر متجسس ہوئے اور پطرس بخاری صاحب سے پوچھا .....’’یہ کیا ہے ؟‘‘ جس پر بخاری صاحب نے فرمایا ۔’’قصہ یوں ہے کہ ایک دن میرے آفس میں بلی آگئی۔مجھے اچھی لگی تو میں نے کسی سے کہا اسے تھوڑا سا دودھ لادو۔پھر وہ بلی ہر روز آنے لگی اور ہر روز اسے دودھ بھی باقاعدگی سے ملنے لگا۔مہینے کے آخر پہ سپرنٹنڈنٹ نے دفتر کے اخراجات کا بل مجھے بھیجا تو اس کے ساتھ ایک تحریری سوال بھی منسلک تھا کہ بلی کے دودھ پر چودہ روپے چھ آنے کی جو رقم خرچ ہوئی ہے، وہ کس مد میں جائےگی ؟میں نے لکھ بھیجا CONTIGENCES یعنی متفرق خرچ میں ڈال دو۔چند روز کے بعد اکائونٹنٹ جنرل نے بل لوٹا دیا اور نوٹ لکھا کہ CONTIGENCYکی مد دفتر کے سازو سامان اور دیگر غیر جاندار اشیاء کے لئے مخصوص ہے ۔بلی جاندار شے ہے جس کے اخراجات اس میں شامل کرنا رولز کی خلاف ورزی ہے ۔اس پر آفس سپرنٹنڈنٹ نے مجھ سے تحریری ہدایت طلب کی۔میں نے لکھا کہ اگر جاندار غیر جان دار کا مسئلہ ہے تو ESTABLISHMENTیعنی عملے کی مد میں ڈال دو۔بل دوبارہ خزانے کو بھیجا گیا اور تھوڑے دنوں میں لوٹ آیا اور اس بار طویل مراسلے میں یہ استفسارات تھے کہ اگر یہ خرچ عملہ کی مدد میں جائے گا تو واضح کیا جائے کہ اس رقم کو تنخواہ تصور کیا جائے گا یا کہ الائونس ۔ اگر تنخواہ ہے تو بھی قاعدہ ضابطہ نمبر فلاں فلاں، دفتر کی پیشگی منظوری درکار ہے اور اگر یہ الائونس ہے تو بموجب رول اینڈ ریگولیشن فلاں فلاں متعلقہ افسر سے اس کی تصدیق لازمی ہے چنانچہ یہ فائل چھ مہینے سے چل رہی ہے اور اس میں ایسے ایسے باریک انتظامی قانونی نکتے بیان ہوئے ہیں جن کاتصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔‘‘یہ ہے گورننس اور قواعدوضوابط کا احترام جبکہ ’’آزادی‘‘ کے بعد کی مادر پدر آزادی میں تو قدم قدم پر ’’انہی ‘‘(اندھی) پڑی ہوئے ہے ۔حلوائی کی دکان پر نانا دادا سب کی فاتحہ، سکھا شاہی، واہی تباہی کا ناتمام سلسلہ ہے جس کا سب سے بڑا موجد نواز شریف جس نے رولز ریلیکس کرنے کی بدعت عام کی اور اپنا ووٹ بینک بنانے کیلئے 60،60سال کے بابوں کو پٹواری اور ʼʼWANTEDʼʼقسم کے جرائم پیشہ لوگوں کو پولیس میں بھرتی کیا۔پبلک پارکس ،چمچوں کو دان کئےکواپریٹوز کے ساتھ کھلواڑ کیا اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ آج وکیل وزیر یہ کہتا ہے کہ اگر وزیر اعظم IGپولیس بھی نہیں بدل سکتا تو الیکشن کی کیا ضرورت تھی؟وزیر اعظم کا قصور نہیں یہ ’’کٹلری بوکس‘‘ کا کام تھا کہ کوئی اسے بتاتا ’’پرائم منسٹر صاحب !آپ آئی جی کو تبدیل تو کر سکتے ہیں لیکن فون پر نہیں کہ اس کا ایک پراسیس پروسیجر اور طریق کار ہے ‘‘ لیکن آلات خورونوش ایسا رسک نہیں لیتے، یہ انسانوں کا کام ہے !

کیا منظر تھا ، زرداری صاحب اور شہباز شریف کا معانقہ بھرا مصافحہ کرنا، ایک دوسرے کو ضرورت بھرے پیار سے دیکھ دیکھ مسکرانا، پہلے آپ ،نہیں پہلے آپ کہہ کر اسمبلی ہال میں قدم رنجہ فرمانا ،مل بیٹھنے ، رابطے رکھنے کے عہدوپیماں کرنا۔ وقت بھی کیا ظالم شے ہے ، کل شہباز شریف جسے چوکوں ،چوراہوں میں لٹکانا چاہتے تھے ، جو چا لیس چوروں کا علی بابا تھا ، جسکا پیٹ چیرنا تھا ، جسے لاہور، لاڑکانہ کی سڑکوں پر گھسیٹنا تھا ، جسکے بار ے میں فرمایا کرتے ’’غیروں کے سامنے جھکنے والے زرداری تم نے تو ملک کا حشر نشر کر دیا ،بھکاری بنا دیا‘‘، وقت بدلا،مطلب پڑاتو اسی زرداری صاحب سے جپھی مارنے میں ایک سیکنڈ نہ لگایا ، زرداری صاحب کی سن لیں، کل تک ’شریفوں ‘ کا اصلی والا احتساب چاہتے تھے ،وہ مغل بادشاہ مطلب نواز شریف کی گرفتاری چاہتے تھے ، فرمایا کرتے ’’ میاں صاحب نے پاکستان کی جڑیں کاٹ دیں، وہ تو ’گریٹر پنجاب ‘ بنانے کے چکر میں ‘‘،منی لانڈرنگ کا گھیرا تنگ ہوا تو کل تک ’شریفوں‘ کو پکڑائی نہ دینے والے زرداری صاحب شہباز شریف کا ہاتھ پکڑے کھڑے ملے ، بھول گئے کہ نواز شریف کو دھرتی کا ناسور کہہ چکے ،مُک گیا تیرا شو نواز،گو نواز گو نوازکے نعرے مارچکے ، بھول گئے کہ جب نواز شریف ملنے کی درخواستیں کررہے تھے تو انکا جواب ہوتا ’’مومن ایک سوراخ سے بار بار نہیں ڈسا جاتا‘‘ وقت بھی کیا ظالم شے ہے،آج مومن پھر ڈسے جانے کی خواہش میں تڑپ رہا اور بلاول جس قاتل اعلیٰ سے ماڈل ٹاؤن قتلوں ،کمیشنوں ،کرپشنوں کا حساب لینا تھا ، کے پاپا اسی سے تجدید ِمحبت فرما رہے ۔

جب بھی سوچوں یہ کل جھوٹ بول رہے تھے یا آج اداکاریاں کر رہے ، یہ کل سچے تھے یا آج جھوٹے ،یہ کل صراطِ مستقیم پر تھے یاآج بھٹک گئے اوریہ کل دھوکے دے رہے تھے یا آج فراڈ کر رہے تو لگے یہی کہ کل بھی ہیراپھیریاں اور آج بھی گھمن گھیریاں ، کیونکہ یہ سب جماندرو سیانے ،ا ن کا بولنا، ان کی خاموشی ، ان کی تردیدیں ، انکی تصدیقیں ، ان کے دعوے ،انکے وعدے، انکی معصومیت ،انکی مظلومیت ،انکا ملنا، مل کر بچھڑنا ، بچھڑ کر ملنا،سب کچھ منصوبہ بندی سے ، سب کچھ اپنے فائدے کیلئے ،کل جب زرداری صاحب نے’ اینٹ سے اینٹ‘ بجانے والی تقریر فرمائی تو نواز شریف نے نہ صرف اگلی صبح طے شدہ ناشتہ میٹنگ کینسل کردی بلکہ پلٹ کرخبر ہی نہ لی کیوں ، اس لئے کہ تب نواز شریف کا اسی میں فائدہ تھا، جب میاں صاحب پاناما میں پھنسے تو زرداری صاحب نے خواجہ آصف کا فون سننا بھی گوارہ نہ کیاکیوں ،اس لئے کہ تب زرداری صاحب کا اسی میں فائدہ تھا، دھرنوں کے دورا ن دونوں اکٹھے تھے کیوں ،اس لئے کہ تب اسی میں دونوں کا فائد ہ تھا، یا د آیا برے وقتوں میں جس خواجہ آصف کا زرداری صاحب نے ایک فون بھی نہ سنا، اسی خواجہ آصف نے وصیت کے زور پر پارٹی چیئرمینی لے چکے زرداری صاحب کی تب مدد کی جب وہ وزارت عظمیٰ کی دوڑ سے امین فہیم کو آؤٹ کرنا چاہ رہے تھے ،پھر خواجہ آصف نے کیسے نواز شریف کی مرضی سے امین فہیم کے خلاف یہ بیان دے کر کہ ’’ ان کے تو اسٹیبلشمنٹ سے درپردہ تعلقات ہیں ‘‘ مخدوم صاحب کا پتا صاف کیا ،یہ سب ،سب کومعلوم ۔

آج چونکہ نواز شریف کو اوپر تلے 3ریفرنسز کا سامنا، شہباز شریف آشیانہ اور56کمپنیوں کے رُولوں میں اورزرداری صاحب، بہن اور چہیتوں سمیت منی لانڈرنگ دلدل میں،لہٰذا آج پھر فاصلے سمٹ رہے کیوں ،اس لئےکہ اسی میں ان کا فائدہ ، اس بار’ میلاپ گاڑی ‘کے ڈرائیور مولانافضل الرحمٰن ، وہ ڈرائیونگ سیٹ پر کیوں، اس لیے کہ اسی میں ان کا فائدہ ،ا س طرح تو ہوتا ہے ،اس طرح کے کاموں میں ،نواز شریف اقتدار میں تھے تو ڈان لیکس غلط ،اقتدار سے نکلے تو ڈان لیکس ٹھیک کیوں ،اس لئے کہ اسی میں ان کا فائدہ ،نواز شریف وزیراعظم تھے تو ’عمران دھرنوں‘ کے پیچھے کوئی خفیہ ہاتھ نہ تھا ،وزارت عظمیٰ گئی تو دھرنوں کے پیچھے خفیہ ہاتھ نظر آگیا کیوں، اس لئےکہ اسی میں ان کا فائدہ ،اقتدار میں تھے تو پرویز مشرف کو جانے دیا ،اقتدار سے نکلے تو مشرف کو واپس لانے کی صدائیں دینے لگے کیوں ،اس لئےکہ اسی میں ان کا فائدہ ، جلا وطن تھے تومیثاقِ جمہوریت کی جپھیاں، وطن واپسی ہوئی تو میثاقِ جمہوریت ہَوا ہوئی کیوں، اس لئےکہ اسی میں ان کا فائدہ ،حدیبیہ فیصلہ کرنے والی سپریم کورٹ کما ل کی ، نااہل کرنے والی سپریم کورٹ بغض وعناد سے بھری ہوئی کیوں ، اس لئے کہ اسی میں ان کا فائدہ ۔

شہباز شریف کی بات کر لیں ، راتوں کو مفاہمتیں ،دن کے اجالوں میں حبیب جالبیاں ،اس لئے کہ اسی میں ان کا فائدہ ، ریلی لاہور ائیرپورٹ نہ پہنچے ، فلائٹ اسلام آباد نہ آپائے ، مشکل وقت میں کمر درد نکل آئے کیوں ،اس لئے کہ اسی میں ان کا فائدہ ،زرداری صاحب تو کمال ہی کر چکے، رائے ونڈ جاکر پچاس کھانے کھا لیں یانواز شریف کو قومی سلامتی کیلئے خطرہ قرار دیدیں یابلاول سے نوازشریف کو مودی کا یار کہلو اکر،گلی گلی شور ہے ،نوا زشریف چور ہے کے نعرے لگوالیں ، بی بی کے قاتلوں کو جانتاہوں کہہ کر پھر 5سالہ صدارت میں قاتلوں کی بات نہ کریںکیوں ،اس لئے کہ اسی میں انکا فائدہ، ابھی انتخابات ہوئے ،پہلی اے پی سی ہوئی ،زرداری ،بلاول نہ تھے کیوں ،اس لئے کہ اسی میں ان کا فائدہ ،دوسری اے پی سی میں زرداری ،بلاول کیساتھ نواز،مریم بھی نہیں کیوں ،اس لئےکہ اس میں ان کا فائدہ ،سب نے کہا الیکشن جعلی ،اسمبلیاں نقلی ،سب کے سب اسی سیٹ اپ کا حصہ بن گئے کیوں ،اس لئےکہ اسی میں سب کا فائدہ ۔حال یہ کہ زرداری صاحب بول رہے لیکن خاموشی سے بہت کچھ کر بھی رہے ، نواز شریف بظاہر چپ لیکن اندر اندر بہت کچھ کہہ بھی رہے ، بتانے کا مقصد یہ کہ نواز شریف کی چپ ،زرداری صاحب کا بولنا ،مولانا کی بھاگ دوڑ، سب اپنے اپنے چکر ،سب اپنے اپنے ایجنڈے، سب اپنے اپنے مفادات ،کہیں کیسز ختم کرو، کہیں لاڈلوں کو کچھ نہ کہو ، کہیںمٹی پاؤ،ویسے آپس کی بات ہے جس طرح کا بھی ’ممی ڈیڈی‘ احتساب ہورہا ،قید میں گھر کے کھابے، رنگ برنگی ملاقاتیں ،صبح وشام کی واکیں اورمنڈیلا پن ،حالت یہ کہ شہباز شریف کو دیر سے لانے پر اپوزیشن واک آؤٹ کر جائے اور حکومت ترلے منتیں کرنے مطلب منانے پہنچ جائے، اس ’ممی ڈیڈی ‘ احتساب میں کچھ اگلوایا اور نہ نکلوایا جا سکے گا،اگر کوئی سنجیدہ ہے تو اگلوانے ،نکلوانے کے دوطریقے ،ایک چین کا ،دوسرا سعودی عرب کا ،خیر چھوڑیں ،ذرا یہ ملاحظہ کریں، مولانا، نواز شریف کو ’اے پی سی‘ میں شرکت کیلئے راضی کرنے گئے تو میاں صاحب بولے ’’میری اورمریم کی گرفتاری ‘ پر’ اے پی سی ‘تو کی نہیں ،اب کیوں ہور ہی ‘‘ یقین جانیے اس ایک فقرے میں گزشتہ تین دہائیوں کی سیاست کا نچوڑ ،مطلب مجھے بچایا جو میں اب بچاؤں ، مطلب مجھے بچاتے تو میں تمہیں بچاتا مطلب کل بھی سب کا سب کچھ اپنے اور اپنوں کیلئے، آج بھی سب کا سب کچھ اپنے اور اپنوں کیلئے ،پھر سے اپنا پرانا جملہ یا دآگیا کہ سب کا سب کچھ ’’حال بچاؤ،آل بچاؤ اور مال بچاؤ‘‘۔



اسلام آباد: وزیراعظم عمران خان  نے کہا ہے کہ آسیہ بی بی فیصلہ آئین اور قانون کے مطابق ہے۔

قوم سے خطاب میں وزیر اعظم عمران خان نے کہا کہ مدینہ کی ریاست کے بعد پاکستان واحد ملک ہے جو اسلام کے نام پر بنا، پاکستان کا کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں، پاکستان کا آئین قرآن و سنت کے مطابق ہے، سپریم کورٹ کا آسیہ بی بی کیس میں جو فیصلہ آیا ہے وہ آئین اور قانون کے مطابق ہے۔

عمران خان نے کہا کہ واضح کرنا چاہتا ہوں کہ ہماری حکومت ملک کو مدینہ کے طرز کی  فلاحی ریاست بنانا چاہتی ہے، سپریم کورٹ کے فیصلے پر چھوٹے سے طبقے نے ردعمل دیا ہے۔ سپریم کورٹ کے جج کے خلاف جو زبان استعمال کی گئی وہ درست نہیں، فیصلے کے بعد بعض لوگ کہہ رہے ہیں کہ سپریم کورٹ کے ججز واجب القتل ہیں۔ بعض لوگ فوج اور جرنیلوں کو کہہ رہے ہیں کہ آرمی چیف کے خلاف بغاوت کریں۔ سڑکیں بند کی جارہی ہیں۔ 

وزیراعظم نے کہا کہ سپریم کورٹ سے من پسند فیصلے نہ آنے پر یہ لوگ ملک کو نقصان پہنچارہے ہیں، عوام سے اپیل کرتا ہوں کہ کسی صورت اکسانے والے لوگوں کا ساتھ نہ دیں، یہ کوئی اسلام کی خدمت نہیں کررہے، یہ لوگ جھوٹ بول کر فوج کو آرمی چیف سے بغاوت کا کہہ رہے ہیں اور اپنی سیاست چمکا رہے ہیں۔

وزیر اعظم نے کہا کہ ان عناصر سے بھی کہتا ہوں کہ اپنی سیاست اور ووٹ بینک کے چکر میں ملک کے خلاف کام نہ کریں۔ اگر صورتحال خراب کرنے کی کوشش کی گئی تو ریاست  ایکشن لینے پر مجبور ہوگی، ریاست سے نہ ٹکرائیں۔ ہم کوئی توڑ پھوڑ نہیں ہونے دیں گے، نہ ہی سڑکوں پر ٹریفک رکنے  دیں گے۔

ہوا اپنا سب سے سہانا گیت گیہوں کے کھیتوں کے لیے گاتی ہے مگر سنہری وہ سرما کی دھوپ سے ہوتا ہے‘ رفتہ رفتہ ‘ دھیرے دھیرے‘ بتدریج۔ کھلیانوں میں پھر سونے کے ڈھیر پڑے ہوتے ہیں۔
ٹی وی کی خاتون میزبان نے لکھا: اس حقیر (Tiny) اقلیت کو اپنا احتجاج رجسٹر کرانا چاہئے‘ جو اعلیٰ اخلاقی اقدار کی علم بردار ہے۔ معزز اور معتبر۔ یہ صرف مذہبی لوگ نہیں جو زعم تقویٰ اور خبطِ عظمت کا شکار ہوتے ہیں۔ اشتراکی‘ سیکولر اور لبرل طبقات بھی۔
مذہبی انتہا پسندی ایک سنگین مسئلہ ہے۔ جب اور جہاں کہیں کوئی معاشرہ اس کا شکار ہوا‘ تباہی آتی ہے۔ ہم پاکستانیوں سے زیادہ ‘ کسی کو اس کا ادراک نہیں ہو سکتا۔ ساٹھ ہزار پا کستانی شہری‘ اس کی نذر ہوئے اور چھ ہزار سے زیادہ فوجی افسر اور جوان۔ اجتماع کا حافظہ کمزور ہوتا ہے۔ اپنی ابتلا کو بھول جانے کی کوشش کرتا ہے۔ 
ابھی کل کی بات ہے کہ ہر ہفتے ملک میں تین سے پانچ بڑے دھماکے ہوا کرتے ۔ پولیس اور ایف آئی اے کے دفاتر محفوظ تھے اور نہ آئی ایس آئی کے۔ انتہا یہ ہے کہ جی ایچ کیو پر حملہ ہوا۔ ہدف سپہ سالار جنرل اشفاق پرویز کیانی کو یرغمال بنانا تھا۔ بہشتِ بریں کا آرزو مند‘ محافظوں کو قتل کرتا ہوا‘ جنونیوں کا ٹولہ جب اندر داخل ہوا تو ایک فوجی سے جنرل کے دفتر کا راستہ پوچھا۔ جان کا خطرہ مول لے کر اس نے گریز کیا‘ ورنہ اللہ جانے کیا ہوتا۔
اس کے باوجود کہ سول ادارے ان سے نمٹنے کے قابل نہ تھے۔ اس کے باوجود کہ کراچی کی حد تک‘ خود عسکری قیادت نے غیر معمولی احتیاط کی پالیسی اختیار کر رکھی تھی‘ خوف سے جس کی حدود جا ملتی تھیں۔ اس کے باوجود کہ زرداری اور شریف حکومتیں‘ اس جنون سے لڑنے پہ آمادہ نہ تھیں‘ بالآخر یہ جنگ جیت لی گئی۔ پاکستان‘ لیبیا اور شام بننے سے محفوظ رہا۔ ہرگز رتے دن کے ساتھ‘ دہشت گردی تحلیل ہوتی گئی۔ حقیقی امن مگر قانون کی کامل بالا دستی ہی سے ممکن ہے۔ اس کے لیے طاقتور اور تربیت یافتہ‘ سول ادارے درکار ہیں۔ یہ جنگ افواج کے بل پر جیتی گئی جو احساسِ ذمہ داری سے لبریز ہیں۔
کوئی دن میں ایک اعلیٰ فوجی افسر کے فرزند کی شادی ہے۔ ان کے دفتر سے فون آیا: گھر کا پتا لکھوا دیجئے۔ لکھوا دیا۔ آج کسی نے فون کیا کہ گھر کی تلاش میں دشواری ہے۔ عرض کیا: دشواری ہے تو چھوڑ دیجئے‘ ایسا بھی کیا ضروری ہے۔ کوئی دیر میں ایک افسر کا فون آیا۔ اس نے معذرت کی۔ اس نے پتا نہ پوچھا۔ ظاہر ہے کہ اس اثنا میں ڈھونڈ نکالا تھا۔ عرض کیا: معذرت کرنے کی ضرورت نہیں۔ ناراضی کا سبب یہ ہے کہ اس معمولی کام کے لیے بار بار فون آپ کو نہیں کرنا چاہئے۔ پولیس اور سول سروس نالائقی کا مظاہرہ کرے تو تعجّب کیا۔ آپ ایسا نہیں کر سکتے۔
ہر چیز ہم نے فوج پہ ڈال دی ہے۔ یہ مضحکہ خیز اور احمقانہ ہے۔ فوج کا کام سرحدوں کی حفاظت ہے۔ بھارت‘ افغانستان اور ایران کے پڑوس میں یہ بجائے خود بہت بڑی ذمہ داری ہے؛ چہ جائیکہ سول معاملات بھی اسی کے سپرد کر دیئے جائیں۔ ایران سے کوئی خطرہ نہیں مگر بلوچستان کے ویرانے جب عالمی طاقتیں برتنے کی کوشش کریں تو احتیاط واجب ہے۔ رہا افغانستان اور اس سے ملحق قبائلی پٹی تو وہ عالمی خفیہ ایجنسیوں کی آماج گاہ ہیں۔ پاکستان کی تزویراتی اہمیت ہی میں اس کا امتحان بھی پوشیدہ ہے۔ بھارت ہمارا پڑوسی ہے۔ اس کی اسٹیبلشمنٹ کا فیصلہ یہ ہے کہ پاکستان کو ختم نہیں کیا جا سکتا؛ تو غیر مستحکم ضرور رکھّا جائے۔ وزیرستان کی سرحد پہ کھڑے ہو کر‘ گاندھی جی نے کہا تھا: بھارت کی حدود بامیان تک ہیں۔ غلبے کی وہی جبلّت۔ صدیوں محکوم رہنے والی اقوام میں یہ اور زیادہ شدّت سے پھوٹتی ہے۔ سرب وحشیوں کے ہاتھوں‘ بوسنیا کے قتلِ عام میں ترکوں کے اقتدار کا دخل بھی تھا‘ جو مدتوں قائم رہا۔ 
ماضی کو ہم بدل نہیں سکتے مگر اس کا بوجھ گاہے اٹھانا پڑتا ہے۔ نفرت کوئی اثاثہ نہیں۔ افراد کی طرح اقوام کی راہ بھی کھوٹی کرتا ہے مگر اس سے چوکنّا رہنا چاہئے۔ اس کا ہدف بننے سے بچنا چاہئے۔
پاکستان اب بھی ایک منظم قوم کا وطن نہیں‘ ملّا اور ملحد نے اس کی مخالفت کی تھی کہ عنان معتدل مزاج مسلمان لیڈروں کے ہاتھ میں تھی۔ ملحد کے علاوہ وہ کھوکھلے ترقی پسند بھی‘ جن کے نزدیک زندگی میں عقیدے کا عمل دخل ہرگز نہ ہونا چاہئے۔ پانچ چھ عشروں تک بائیں بازو کے زیر اثر‘ ذہنی غسل سے گزرے لوگ‘ قائدِ اعظمؒ اور اقبالؒ کو گالی بکتے ہیں۔ ارتقا کے سفر میں اقوام کو ایسے گروہ گوارا کرنا ہوتے ہیں۔ ان کا مداوا جوابی تشدد نہیں‘ بلکہ صبر و تحمل اور تعلیم ہے۔
نئی نسل مختلف ہے اور آنے والی نسلیں اور بھی مختلف ہوں گی۔ پرانی‘ تقریباً معدوم ہو چکی نسل کے لیے‘ اچھا یا بُرا‘ پاکستان ایک حادثہ تھا۔ نئی کے لئے اٹل حقیقت ہے۔ پروفیسر فتح محمد ملک کے فرزند نے ان سے کہا: اس نظری بحث کی میرے لیے کوئی زیادہ اہمیت نہیں کہ پاکستان بننا چاہئے تھا یا نہیں۔ میرے لیے یہ میرا وطن ہے... اور بس۔ زیادہ موزوں الفاظ میں شاید یہ کہا جا سکتا ہے کہ بحث شادی سے پہلے ہوتی ہے‘ بچّے پیدا ہونے کے بعد نہیں۔ سید عطاء اللہ بخاری نے کہا: مسجد کی تعمیر سے پہلے مباحثہ ممکن ہے‘ بعد میں نہیں۔
چار پانچ عشرے تک سوویت یونین اور پھر بھارت کے زیر اثر‘ امریکہ جس کا تزویراتی حلیف ہے‘ ایسے گروہ اب بھی پھل پھول رہے ہیں‘ دبے الفاظ میں جو پاکستان سے کراہت کا اظہار کرتے ہیں۔ دبے الفاظ میں کہ رائے عامہ سے ڈرتے ہیں۔ نئی اقوام میں بلوغت کا عمل اسی طرح انجام پاتا ہے۔ کبھی یہ لوگ اشتراکی تھے‘ کبھی سیکولر اور اب لبرل کہلاتے ہیں۔ خوش لباسی کی آرزو مند خواتین کی طرح‘ دانش کا بھی ہر زمانے کا ایک الگ فیشن ہوتا ہے۔ اپنی آنکھ سے زندگی کو دیکھنے والے کم ہوتے ہیں۔
1946ء کے انتخابات ہو چکے‘ جس میں 75.6 فیصد ووٹروں نے پاکستان کے حق میں رائے دی‘ تو قائدِ اعظم کے ایک دوست نے ان سے پوچھا: Do you really believe, it will become a nation. It will take fifty years.۔ جواب میں اس دانائے راز نے کہا "A hundred year" جی نہیں‘ ایک سو سال۔ تاریخی شعور کے حامل اس آدمی نے دیکھا تھا کہ 1776ء میں آزادی کے 89 برس بعد امریکہ میں خانہ جنگی پھوٹ پڑی تھی۔ امریکہ بہادر کے مقابلے میں‘ پاکستان نے بلوغت کا سفر زیادہ تیزی سے طے کیا ہے۔ 242 برس گزر جانے کے باوجود امریکہ کے جنوب میں ابرہام لنکن کو اب بھی پسند نہیں کیا جاتا۔ حالانکہ وہ اس قوم کی تاریخ میں اخلاقی عظمت کی سب سے بڑی علامت ہیں۔ پاکستان کے بعض قبائلی علاقوں میں‘ قدامت پسند علماء کے زیرِ اثر ناخواندہ لوگ‘ بابائے قوم کو ہیرو نہیں سمجھتے تو اس میں تعجّب کیا۔ یہ تعلیم سے ہو گا۔ وقت گزرنے کے ساتھ ہو گا۔ اس سے بھی زیادہ نظامِ عدل کے قیام سے۔ اس سے بھی زیادہ تحفظ کے ایک سچّے احساس سے۔ مٹّی سے نہیں‘ انسانوں کو ماحول سے محبت ہوتی ہے۔
تاریخ کی شہادت یہ ہے کہ عسکری غلبے کی بجائے جو آج بھی کار فرما ہے‘ اس مقصد کے لیے سول اداروں کی بالاتری درکار ہے۔ بہت شاندار منصوبہ بندی سے‘ قومی اتفاقِ رائے کے عمل کو شاید زیادہ بہتر انداز میں انجام دیا جا سکے‘ تیز تر نہیں کیا جا سکتا۔ اس اثنا میں ایک کے بعد احمقوں کا دوسرا گروہ پھوٹتا رہتا ہے۔ خود کو وہ انقلابی کہا کرتے ہیں۔
ہوا اپنا سب سے سہانا گیت گیہوں کے کھیتوں کے لیے گاتی ہے مگر سنہری وہ سرما کی دھوپ سے ہوتا ہے‘ رفتہ رفتہ‘ دھیرے دھیرے‘ بتدریج۔ کھلیانوں میں پھر سونے کے ڈھیر پڑے ہوتے ہیں۔


سرما کی صبح کا مہرباں آفتاب بھی۔
کبھی دل چاہتاہے کہ افسانہ لکھا جائے ۔ مگر طبع کی موزونیت بس اتنی ہے کہ ڈھنگ کا جملہ لکھا جا سکے‘ جو اخبار میں چھپ جائے۔ بدقسمتی نہیں‘ یہ خوش قسمتی ہے۔ کہانی اگر لکھتے تو کشکول لیے آج اخبار کے دروازے پہ کھڑے ہوتے۔ایک مولانا ظفر علی خاں بھی تھے۔ شعر کہتے ‘خطاب فرماتے تو مجمع مٹھی میں ۔ ترجمہ کرتے تو اصل سے بڑھ جاتا۔ سیاست میں آئے تو طوفان اٹھا دیا اورعشروں تک اٹھائے رکھا۔آخر عمر میں ایک اتائی کی دوا کھا کر معذور ہو گئے۔ موچی دروازے کے جلسۂ عام میں صدارت کی کرسی پہ بٹھا دئیے گئے۔ سید عطاء اللہ شاہ بخاری نے ان کے چہرے کولاڈ سے تھاما اور یہ کہا: ظفر علی‘ تیرے ''ستارہ ٔصبح‘‘ نے میرے جگر میں آگ لگا دی تھی۔
صحافت اپنے عہد کے ظاہر کو بیان کرتی ہے۔ادب اس کے باطن میں سرسراتی تاریکیوں‘ جھٹپٹے اورروشنیوں کوبھی ۔ ایسی غزل لکھنے کی توفیق خورشید رضوی کو عطا ہوئی کہ گردش لیل و نہار میں شاید تابندہ رہے۔انہیں کیا پڑی کہ اخبار میں لکھیں۔ 
اپنے باطن کے چمن زار کو رجعت کر جا
دیکھ اب بھی روشِ دہر سے وحشت کر جا
اپنا چلتا ہوا بت چھوڑ زمانے کے لئے
اور خود عرصۂ ایام سے ہجرت کر جا
جاں سے آگے بھی بہت روشنیاں ہیں خورشیدؔ
اِک ذرا جاں سے گزر جانے کی ہمت کر جا
باایں ہمہ کوئی بات ایسی ہوتی ہے کہ زیب ِداستاں کے بغیر بیان نہیں ہو سکتی۔زیب ِداستان کالم میں بھی ہوتا ہے مگر کم کم‘ جانا پہچانا۔ افسانے میں کہانی اگرچہ سچی ‘ اور کردار حقیقی ‘کنایہ لطیف ہوتا ہے...اور حسب و نسب کے بغیر۔
کالم کمتر نہیں۔ احمد ندیم قاسمی لکھا کرتے تھے‘ شورش کاشمیری اور زبان و بیان کا وہ شہسوار‘ چراغ حسن حسرت لیکن وہ ایک دوسری اور بلند سطح ہے ۔ ایم ڈی تاثیر نے لکھا ہے کہ ایک دن وہ اقبالؔ کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔کہا: جاوید نامہ لکھنے کے بعد میں تونچڑ چکا ‘ تمہی کچھ سنائو۔ جواں سال شاعر نے تازہ کلام سناناشروع کیا۔
تیری صورت سے تجھے دردِ آشنا سمجھا تھا میں
چند لمحے کا استغراق اور شعر اس طرح ڈھلتے گئے‘ جیسے خطیب برسرِ منبر ہو ۔ خادم علی بخش‘ اقبالؔ کے سب سے بڑے احوال آشنا تھے۔ انہیں تالی بجا کر بلایا کرتے کہ شرفا کا دستور تھا۔ کبھی کسی شب‘ اچانک تالی سنائی دیتی۔ بھاگم بھاگ پہنچتے تو وہ کاغذ طلب کرتے۔ لکھتے اورپھر سے گہری نیند سو جاتے۔ سحر اسے دیکھتے‘ شاذ ہی کوئی تبدیلی کرتے‘ حالانکہ تکمیل پسند تھے۔ ایک ایک مصرعے پہ کبھی پہروں غور کیا کرتے۔مولانا عبدالقادر گرامی ایسا کوئی ہم نفس میسر آتا تو مشورہ بھی کرتے۔
ایم ڈی تاثیر نے جیسے ہی شعر پڑھا‘اقبالؔ کے قلب میں جاگزیں خیال کا شجر شاخوں سمیت پھوٹ پڑا۔ پھولوں سے لدی ٹہنیاں۔ ہارون الرشید کے محل میں ایک درخت ایسا بھی تھا‘ جس کے گل اور پرندے ہیروں سے ڈھلے تھے۔ اقبالؔ نے کہنا اور تاثیر نے لکھنا شروع کیا۔
اپنی جولاںگاہ زیرِ آسماں سمجھا تھا میں
آب و گل کے کھیل کو اپنا جہاں سمجھا تھا میں
بے حجابی سے تری ٹوٹا نگاہوں کا طلسم
اک ردائے نیلگوں کو آسماں سمجھا تھا میں
کارواں تھک کر فضا کے پیچ و خم میں رہ گیا
مہرو ماہ ومشتری کو ہم عناں سمجھا تھا میں
عشق کی اک جست نے طے کر دیا قصّہ تمام
اس زمین و آسماں کو بے کراں سمجھا تھا میں
کہہ گئیں رازِ محبت پر دہ داری ہائے شوق
تھی فغان وہ بھی جسے ضبطِ فغان سمجھا تھا میں
تھی کسی درماندہ راہ رو کی صدا ئے دردناک
جس کو آوازِرحیلِ کارواں سمجھا تھا میں
اتنے میں کوئی در آیا۔ شاعر متوجہ ہوا۔ملاقاتی چلا گیا۔توفرمائشی نگاہ سے مداح نے دیکھا۔ فرمایا:وہ لہر تمام ہوئی۔
کبھی کبھی بہت دانا بھی نہیں سمجھتے کہ جومقدر میں لکھا ہے سو لکھا ہے۔ 
مہینوں سے بند پڑے پرانے موبائل کو کھولا اور پرانی ڈاک دیکھی۔ ایک ممتاز لیڈر‘ مصنف اور خطیب کا شکوہ۔ تمہارا بیٹا کالم نگار ہو گیا اور عطاء الحق قاسمی کا بھی۔ اخبار میں بھی کیا موروثیت ہوتی ہے۔ ایسی قدرت ہے کہ خود میں نے ان سے خود نوشت لکھنے کی فرمائش کی۔ اخبار میں کیوں بار نہ پا سکے؟ اس لئے کہ اس کام کے لئے بنے ہی نہیں۔یہ دوسری دنیا ہے۔وعظ و خطابت کی نہیں۔ شکوہ سنج کیوں ہیں؟ اس لئے کہ آدمی کی فطرت یہی ہے۔ کسی کے لئے بھی سب فنون اور سب کامیابیاں نہیں ہوتیں۔ شاکی نہیں‘ اس پہ شکرگزارہونا چاہئے۔ کبھی کبھی یہ نکتہ ہم سب بھول جاتے ہیں‘ حتیٰ کہ قابل رشک اہل علم بھی۔ صرف ایک سچا صوفی ہی شکایت کو گہرا دفن کرتا ہے۔ اتنا گہرا جتنا اورنگ زیب عالمگیر نے موسیقی کو دفن کرنا چاہا تھا۔ یہ کیسے ممکن تھا؟ سید ابوالاعلیٰ مودودی کو یہ کہتے سنا گیا: ''کسی زندہ قوم میں اللہ نے مجھے پیدا کیا ہوتا‘مثلاً: جاپان میں‘‘...یہ الفاظ تو خود خاکسار نے سنے‘ ''میں صبر کرتا ہوں‘ لیکن صرف میں جانتا ہوں اور اللہ جانتا ہے کہ اعصاب پہ کیا گزرتی ہے‘‘۔ 
وہ کوئی خیال تھا‘ افسانہ لکھنے کی‘ جس نے آرزو پیدا کی۔ قاعدہ یہ ہے کہ خیال اپنے لفظ ساتھ لے کر آتا ہے۔ کبھی ایسا ہوتا ہے کہ کوئی خیال قلب میں جاگزیں ہوتا ہے۔ ٹھہر جاتا ہے مگر موزوں الفاظ نہیں پاتا۔ اس لمحے کو لکھنے والا ٹال دیتا ہے۔ اگر وہ ایک صالح خیال ہے ۔اس کی شخصیت اور مزاج سے ہم آہنگ تو اچانک بہہ نکلتا ہے‘جھرنے کی طرح۔احمدندیم قاسمی نے کہا تھا۔
رکے ہوئے ہیں جو دریا انہیں رکے نہ سمجھ
کلیجہ چیر کے نکلیں گے‘ کوہساروں کا
صوفی کی بارگاہ میں ایک مسافر آیا۔ اس نے کہا: عجب حادثہ ہوا اور کئی بار۔ نماز پڑھنے کا ارادہ کیا‘ نیت باندھی۔ برسوں سے پڑھتا چلا آیا تھا مگر اس روز یہ ہوا کہ آغاز ہی نہ کر سکا۔ سبحانک اللھم و بحمدک ہی کہہ نہ سکا۔حافظے کا ورق کورا۔
سر اٹھا کر درویش نے اسے دیکھا۔ درد اور شفقت کی نگاہ‘ جو صوفیوں کا شیوہ ہے۔ فقیہہ نہ جانے کیا کہتا۔ درویش نے یہ کہا: دوسری چیزوں کی طرح یادداشت بھی نیّت کے تابع ہوتی ہے۔ ترجیحات میں جو اہم ترین ہے‘ اس کی جزئیات بھی یاد رہتی ہیں۔ بھول جائیں توپھر اجاگر ہو جاتی ہیں‘ بارش‘ جس طرح کھنڈرات کو اجال دے۔ نماز تو عشروں آپ نے پڑھی لیکن فقط فرض جان کر۔ فرض تو یقینا ہے‘ لیکن فقط فرض ہی نہیں‘ اس کے سوا بھی ہے۔فرمان ہے کہ اللہ کو اس طرح یاد کروجیسے اپنے اجداد کو کرتے ہو۔اُلفت اورمحبت کے ساتھ۔فراموشی کا وہ لمحہ‘ عجز اور انس سے خالی تھا۔
خوف اس کے چہرے پہ اتر آیا۔ فرمایا: ڈرنے کی ضرورت نہیں۔ بندوں کی نہیں‘ یہ اللہ کی بارگاہ ہے۔ وہ کہ جس کی صفتِ رحمت اس کی صفتِ عدل پہ غالب ہے۔ پھر قرآن کریم کی آیت پڑھی: اگر میں نہ چاہوں تو تم چاہ بھی نہیں سکتے۔
چہار جانب اجالا تھا۔ صحرا میں ستارے جھک کر قریب آ گئے تھے۔ ان کے تعاقب میں چاند اترا۔ لگا کہ سرما کی صبح کا مہرباں آفتاب بھی۔


طاہر انور کا مختصر سا ٹیکسٹ میسج مجھے اپنے ماضی کے ان اٹھارہ برسوں میں لے گیا‘ جن سے دور رہنے کی ہر وقت ناکام کوشش کرتا رہتا ہوں۔ڈاکٹر ظفر الطاف کے بڑے بھائی جاوید الطاف لاہور میں وفات پا گئے تھے۔ جاوید الطاف سے میرا تعارف 1998ء میں ہوا‘ جب ڈاکٹر ظفرالطاف فیڈرل سیکرٹری زراعت تھے اور ان کا دفتر اسلام آباد کے صحافیوں سے بھرا رہتا تھا۔ وہ فاروق لغاری کے سول سروس میں بیچ میٹ تھے۔ اسلام آباد کی بیوروکریسی میں ڈاکٹر صاحب کا واحد دفتر تھا‘ جہاں کسی کو پی اے کو چٹ دینے کی ضرورت نہ تھی۔ ہر خاص و عام دروازہ کھول کر اندر جاسکتا تھا ۔ ڈاکٹر صاحب جتنی بھی اہم میٹنگ میں مصروف ہوتے، ہاتھ سے اشارہ کرتے‘ پیچھے صوفوں پر بیٹھ جائو۔ کئی دفعہ ہوا ہم صحافی اہم میٹنگ کے درمیان سب گفتگو سن رہے ہوتے۔ کئی افسروں نے سمجھانے کی کوشش کی کہ سرجی یہ کیا کررہے ہیں‘ خبریں‘ باتیں لیک ہوجائیں گی‘ مسئلہ ہوجائے گا ۔ وہ مسکرا کر کہتے :چھوڑو یار ہم کوئی یہاں کہوٹہ پلانٹ چلا رہے ہیں کہ قومی راز نکل جائیں گے‘ زراعت کی وزارت چلاتے ہیں۔ اچھا ہے یہ صحافی لوگ سب کچھ سنیں اور انہیں پتہ چلے اور یہ رپورٹس کریں۔ کون زراعت کے بارے لکھنا ، پڑھنا، جاننا یا رپورٹ کرنا چاہتا ہے۔ ان سب کی مہربانی یہ سب بڑی بڑی بیٹس چھوڑ کر زراعت کی خبر لینے آتے ہیں۔ انہیں چائے‘کافی پلائو اور بسکٹ کھلائو۔ 
ایک دن میں ان کے دفتر بیٹھا تھا کہ ایک صاحب اندر داخل ہوئے‘ ڈاکٹر صاحب احترام میں کھڑے ہوئے‘میں بھی کھڑا ہوگیا۔ مجھے لگا دفتر میں دو ڈاکٹر ظفرالطاف ہیں‘ کبھی ڈاکٹر صاحب کو دیکھوں اور کبھی دوسرے صاحب کو ۔ لگتا تھا خدا نے ڈاکٹر صاحب کی کاپی بنا دی ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے میرے چہرے پر پھیلی حیرانی دیکھی تو ہنس کر کہا: یہ Jہیں‘ میرے بڑے بھائی۔ وہ جاوید الطاف کو جے کہتے تھے۔ ڈاکٹر صاحب نے کرسی چھوڑی اور ہمارے ساتھ آکر صوفے پر بیٹھ گئے۔اتنی دیر میں ایک صاحب ایک فائل لائے اور ڈاکٹر صاحب کو ایک جگہ پر دستخط کرنے کا کہا۔ عموماً ڈاکٹر صاحب اپنے سٹاف اور افسران پر بے پناہ اعتبار کرتے تھے اور آنکھیں بند کر کے فائل پر دستخط کر دیتے تھے۔ ان کے اس اعتماد کو کئی افسران اور دوستوں نے غلط استعمال کیا ‘ لیکن وہ آخری دم تک لوگوں پر بھروسہ کرتے رہے اور دوست انہیں چکمہ دیتے رہے۔ نہ وہ اعتماد کرنے سے باز آئے نہ ہی ان کے کچھ افسران اور دوستوں نے دھوکے دینے میں رعایت کی۔ پتہ نہیں اس دن کیا ہوا کہ ڈاکٹر صاحب نے فائل پڑھنا شروع کر دی۔ اچانک ڈاکٹر صاحب کے چہرے پر ناراضگی کے تاثرات ابھرے۔ اس افسر کی طرف دیکھا اور بولے: یہ کرنے کو کس نے کہا تھا ؟ وہ افسر جو توقع کررہا تھا کہ وہ نوٹی فکیشن دیکھ کر ڈاکٹر صاحب خوشی سے اچھل پڑیں گے‘ کچھ افسردہ ہوا اوربولا :سر یہ اُس افسر کی فائل ہے جس نے فاروق لغاری کی نگران حکومت میں آپ کے خلاف ریفرنس بنوایا تھا اور آپ نے بہت مشکلات کا سامنا کیا تھا۔ اب اس کی ہم نے ایک چوری پکڑ کر انکوائری کرائی ہے۔ اب اس فائل پر دستخط کردیں تو ہم اس کی برطرفی کا نوٹی فکیشن جاری کردیتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے فائل ایک طرف رکھی اور بولے: آپ جانتے ہیں یہ بندہ کون ہے؟ میں جانتا ہوں ‘کیونکہ جب اس نے ایک نگران وزیر تجارت کو خوش کرنے کے لیے میرے اوپر مقدمات بنوائے تھے تو میںنے سب پتہ کرایا تھا۔ اس کا ایک بیٹا کالج، بیٹی ہائی سکول اور چھوٹا بچہ پرائمری میں پڑھتا ہے۔ اسے سرکاری مکان بھی ملا ہوا ہے۔ اگر ہم آج اسے برطرف کردیں تو یہ پورا گھرانہ سڑک پر آجائے گا ۔ مجھے سمجھائو اس کے بچوں کو ایک ایسے جرم کی سزا ملنی چاہیے جو انہوں نے نہیں کیا؟ وہ بھی اس لیے کہ ان کے باپ نے میرے خلاف کیس بنوایا اور گواہی دی تھی۔ کیا مجھے اسے برطرف کرنا چاہیے تاکہ میرے جذبۂ انتقام کو سکون ملے؟ کیا ہمیں ان تین بچوں کا مستقبل تباہ کرنا چاہیے؟ اس افسر نے پھر بھی قائل کرنے کی کوشش کی ۔اس پر جاوید الطاف جو خاصی دیر سے یہ سب گفتگو سن رہے تھے پہلی بار صرف اتنا بولے: ظفر ٹھیک کہہ رہا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے وہ فائل اس افسر کو لوٹا دی۔ پتہ نہیں پھر انہیں کیا خیال آیا بولے: مجھے پتہ ہے تم لوگ باز نہیں آئو گے۔و ہ فائل اس کے ہاتھ سے لے کر اپنے پاس رکھ لی۔ 
یہ تھا 'جے ‘سے میرا پہلا تعارف اور اس خاندان سے بھی‘ جن کے نزدیک اپنی انا اورانتقام اتنا اہم نہ تھا ‘جتنا مخالف یا دشمن کے بچوں کے مستقبل کا خیال ۔ مجھے پتہ نہیں چلا کب میں اور جاوید الطاف ایک دوسرے کے گرویدہ ہوئے۔ ڈاکٹرصاحب نے ایک دن مجھے فون کیا اور کہا: یار جے آرہا ہے اور اس نے کہا ہے کہ رئوف کو بھی بلائو‘ جلدی آجانا۔ ان دنوں ڈاکٹر صاحب حسب معمول نواز شریف کے ہاتھوں سزا پا کر اوایس ڈی بن چکے تھے۔ جنرل مشرف کے ساتھ بھی تین چار ماہ چل سکے‘ لہٰذا اب ان کے پاس بہت وقت تھا۔ دوپہر سے گپ شپ شروع ہوتی‘ اکٹھے کھانا کھاتے اور پھر شام کو ان کے اپنے پرائیویٹ دفتر سے واپسی ‘جہاں وہ دنیا بھر کے ملکوں کو زرعی پالیسی بنا کر دیتے۔ رات کو پھر میرے دفتر کے باہر فون کرتے ‘باہر نکلو۔ پھر رات کو کہیں چائے، کافی ، سنیکس۔
میں نے زندگی میں بہن ‘بھائیوں کا بہت پیار دیکھا اور سنا تھا‘ لیکن جاوید الطاف اور ظفرالطاف کا نرالہ دیکھا ۔ ان اٹھارہ برسوں میں مجھے ایک دفعہ بھی یاد نہیں پڑتا کہ ڈاکٹر صاحب نے کبھی اپنے بڑے بھائی کے سامنے ایک لفظ اونچی آواز میں کہا ہو یا اگر جے نے کچھ کہہ دیا تو بحث کی ہو۔ جس دن جاوید الطاف نے آنا ہوتا تو خوشی سے نہال ہوتے۔ جاوید الطاف دھیمے لہجے کے مالک اور نفیس انسان تھے ۔ اگر میرے جیسے کسی کی بات اچھی نہ لگتی تو مسکرا کر چپ کرجاتے‘ لیکن ان کی یہ فرمائش ضرور ہوتی کہ ظفر ذرا رئوف کو بلالینا میں اسلام آباد آرہا ہوں۔ ان محفلوں میں اکثر نواب یوسف تالپور بھی شریک ہوتے اور دیر تک گپ لگتی۔ جب جنرل مشرف دور میں شاہین صہبائی کا جینا حرام کیا گیا اور ان کے برادر اِن لا اور ایک بھتیجے کو کراچی سے گرفتار کر کے اڈیالہ جیل میں بند کر دیا گیا تھا‘ تو میں اور ڈاکٹر ظفر الطاف کوششیں کررہے تھے کہ ان مظلوموں کی ضمانت کرائی جائے۔ اللہ بھلا کرے سینیٹر ظفر علی شاہ کا جو ان مظلوموں کی وکالت کر کے مدد کر رہے تھے۔ ایک دن میں اور ڈاکٹر صاحب عدالت جانے لگے تو جاوید الطاف بھی بیٹھے ہوئے تھے‘ کہنے لگے: میں بھی ساتھ چلتا ہوں۔ ڈاکٹر صاحب بولے: ظفر علی شاہ ہیں۔ بولے: کوئی بات نہیں میں وہاں موجود رہوں گا‘ اگر ضرورت پڑی تو میں بھی دلائل دوں گا۔ وہ عدالت میں پورے دو گھنٹے ایک کونے میں کھڑے رہے۔ اپنے تئیں وہ اپنا حصہ ڈال رہے تھے کہ جن کے ساتھ ظلم ہورہا تھا‘ انہیں یہ احساس نہ ہو کہ وہ اکیلے ہیں۔ 
جاوید الطاف کو بھی ڈاکٹر صاحب کے مزاج کا علم تھا کہ جو بھی ان کے پاس چلا جاتا‘ وہ ساتھ چل پڑتے کہ کیا فرق پڑتا ہے۔ جے الطاف دھیمے لہجے میں مختصر اشاروں کنایوں میں بات کرجاتے اور ہنس کر کہتے: ظفر فلاں بندہ تمہیں استعمال کررہا ہے‘ بس دیکھ لینا ۔ ڈاکٹر صاحب خاموش رہتے‘ لیکن اگلے دن وہ عادت سے مجبور‘ پھر چل پڑتے۔ڈاکٹر ظفر الطاف‘ بھائی جاوید الطاف کے بچوں پر اپنی جان چھڑکتے تھے۔ وہ رافع الطاف سے بہت خوش تھے اور کہتے یار اب رافع نے جے الطاف کا وکالت کا کام سنبھال لیا ہے اور بہت محنت کررہا ہے۔ ان کے دوسرے بچوں کے بھی دیوانے تھے۔ 
لاہور میں اتوار کے روز جاوید الطاف کی رسم قل پر میں ان کے گھر کے ایک کونے میںبیٹھا اس جگہ کو دیکھ رہا تھا جہاں تین سال پہلے میں ڈاکٹر ظفر الطاف کی وفات پر جے کی وہیل چیئر کے ساتھ بیٹھا ان کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے کر بیٹھا تھا تاکہ انہیں تسلی دے سکوں۔اس دن ان کے چہرے سے نہیں لگ رہا تھا کہ وہ کتنے بڑے صدمے سے گزر رہے ہیں۔ مجھے بھی اس دن لگا کہ ظفر الطاف ان کے چھوٹے بھائی نہیں بلکہ بیٹے کی طرح تھے اور ان کی موت کے بعد زیادہ دیر زندہ نہیں رہ سکیں گے۔ پچھلے پانچ سال کچھ ایسے گزرے ہیں‘ یقین نہیں آتا ۔ سب کچھ بدل گیا ہے۔ پہلے نعیم بھائی گئے، پھر ڈاکٹر ظفر الطاف اور اب جاوید الطاف ۔ یہ چند برس پوری زندگی پر بھاری گزرے ہیں ۔ محسوس ہوتا ہے ایک صدی بیت گئی ‘ایک مکمل جہاں کہیں کھوگیا ہے ۔ جاوید الطاف جیسا ایک اور اچھا انسان رخصت ہوا ۔ ڈاکٹر ظفر الطاف کے ساتھ گزارے اٹھارہ برسوں کی طویل یادوں کی ایک طویل داستان کا آخری باب بھی تمام ہوا ! 

You can find here Ayaz Ameer, Ayaz Ameer latest Urdu Columns, amar jaleel columns, amar jaleel, amar jaleel latest columns, Haroon ur Rasheed Columns, Nusrat Javed Columns, Ajmal Niazi Urdu Columns, javed chaudhry, Javed Chaudhry Columns, irshad bhatti, sohail warraich, Sohail Warraich, Sohail Warraich  Columns, Ayaz Ameer Urdu Columns Today, Ayaz Ameer Columns, Ayaz Ameer,rauf klasra, rauf klasra columns, jang columns, hassan nisar, hassan nisar columns, orya maqbool jan columns, orya maqbool jan, Mazhar Barlas Urdu Columns Today,  Mazhar Barlas Latest Columns etc.


افلاس ہے افلاس۔ ایک قوم جس نے سر اٹھا کر جینے کا ابھی عزم ہی نہیں کیا۔ خود احتسابی کی آرزو ہی نہیں۔منزل کی جسے تمنا تو ہے‘ راستہ معلوم نہیں۔ قحط الرّجال‘ قحط الرّجاااااااااال!عارف نے کہا تھا ''حکمران اپنے کردار میں صیقل ہوتا ہے کہ سماج کی شعوری اور اخلاقی سطح بلند کر دے یا کمزور کہ اسی کے رنگ میں رنگا جاتا ہے‘‘... عمران خان ہاتھ پائوں مار رہے ہیں کہ وہ خود کو مہاتیر محمد یا قائد اعظم ثابت کریں مگرنہیں‘ مگر نہیں۔ پہلا سمجھوتہ انہوں نے بدعنوان لوگوں کو پارٹی میں شامل کر کے کیا‘ دوسرا اسٹیبلشمنٹ سے ‘ جس کی مدد سے ٹکٹیں بانٹیں ۔تیسرا اب یہ کہ پنجاب میں افسر سفارش سے مقرر ہوں گے ۔ارکان اسمبلی کو دس کروڑ روپے فی کس ترقیاتی رقوم ملیں گی۔ کیاٹھیکیداروں کا انتخاب بھی وہی کریں گے ؟تب کھلے گا سمجھوتے کی سطح کیا ہے۔ 2007ء میں لاہور میں پارٹی کے ایک اجتماع میں‘ کارکن جب کپتان پہ صدقے واری تھے تو‘ عرض کیا: سوچا تھا کہ پی ٹی آئی کبھی بڑی ہو جائے گی لیکن یہ تو وہی کمسن ہے‘ پروگرام کوئی نہیں بس لیڈر کی پوجا۔ مجیب الرحمن شامی سٹیج پہ آئے تو فرمایا:‘ اصل چیز لیڈر ہوتا ہے۔ پروگرام نہیں۔استاد سے پوچھا گیا۔ پھر کہا :میں نہیں جانتا But keep on questioning. Some Questions are nobler than the answers. سوال پوچھتے رہیے ۔کچھ سوال جوابوں سے زیادہ مقدّس ہوتے ہیں۔کچھ تعمیر ہے‘ کچھ تخریب ۔تعمیر انہیں دکھائی نہیں دیتی جو بغض و عناد سے بھرے ہیں۔ تخریب انہیں دکھائی نہیں دیتی‘ جنہیں دھڑے بندی ‘ مرعوبیت اور تعصّب نے اندھا کر دیا ۔ کچھ وہ ہیں ‘ جو سمجھتے ہیں سرکار کے سائے میں زندگی آسودہ ہوتی ہے۔'' تیری زلفوں کی گھنی چھائوں میں‘ گزرنے پاتی تو شاداب ہو بھی سکتی تھی‘‘زلفوں کے نہیں‘ صداقت کے سائے میں حیات ثمر بار ہوتی ہے۔ زندگی امتحان ہے اور دائم امتحان رہے گی۔ فیصلہ حیات کے تمام ہونے پہ ہوتا ہے۔ خارجی ابنِ ملجم نے خنجر گھونپا تو سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے ارشاد کیا: ''فزت برب الکعبہ‘‘ ربِ کعبہ کی قسم میں کامیاب ہو گیا۔نوابزادہ نصر اللہ خان کہا کرتے تھے: خدا انجام بخیر کرے۔ خدا عمران خان کا انجام بخیر کرے۔کل شام ڈاکٹر یاسمین راشد کی خدمت میں حاضر ہوا۔ وہ چند وزیروں میں سے ایک ہیں ‘100 روزہ اہداف جو پورا کر لیں گی ‘ بیشتر نکمے‘ بیشتر نکھٹو۔ سنا تھا کہ پارٹی میں ان کی مخالفت ہے۔ ایک بڑے لیڈر بلڈوزر بنے ہوئے ہیں‘ ان سے خوف زدہ ہیں۔ ابھی سے ڈاکٹر صاحبہ کے حلقے میں آئندہ کا امیدوار ڈھونڈ رہے ہیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد میں ممتا کی ایک شان ہے۔ ڈانٹتی بہت ہیں۔ انہوں نے اس سے پوچھا: تو کیا کر رہا ہے۔ ''باجی!‘‘ اس نے کہا ''2023ء تک آپ بوڑھی ہو جائیںگی‘‘جواں ہمت معالج کا جواب ولولہ انگیز تھا ''93 سال کی عمر میں ڈاکٹر مہاتیر محمد سیاست کر سکتے ہیں تو میں کیوں نہیں؟ ‘‘پھر انہوں نے وہ قہقہہ لگایا‘ جو زندگی کو سر کے بالوں سے پکڑنے والی دادی اماں ہی لگا سکتی ہیں۔اس ناچیز سمیت کئی ایک کا خیال تو یہ تھا کہ انہیں وزیراعلیٰ ہونا چاہئے۔ اللہ نے ان پہ کرم کیا۔ اس ماحول میں شاید کامیاب نہ ہوتیں۔ وزیرِ صحت کے طور پہ ان کی ناکامی کا کوئی اندیشہ نہیں۔ پبلک سروس کمیشن کے ذریعے دو ماہ میں آٹھ ہزار ڈاکٹر اور اڑھائی ہزار نرسیں مقرّر کر دی ہیں۔ دس ارب روپے کی دوائیں‘ اضلاع میں بھجوا دی ہیں۔ شیر شاہ سوری نے ذاتی گودام کرائے پر لے کر لاہور میں رکھ چھوڑی تھیں۔ سرکاری پیسہ برباد کرنے میں ‘ ذاتی پیسہ سنبھالنے میں شریف خاندان کا ثانی شاید کبھی پیدا نہ ہوگا۔ 260 ارب اورنج ٹرین پہ لٹا دیئے۔ پینے کا صاف پانی نہ ملنے سے لاکھوںہر سال مر جاتے ہیں۔ڈاکٹر صاحبہ سے امید وابستہ ہے ۔وہ ایک ماں ہیں۔ عرض کیا: دو کام ہیں۔ ایک تو سول ہسپتال میں ''انجمن فلاح و بہبود انسانیت ‘‘ گوجرانوالہ کو دو کنال جگہ دے دیں کہ غربا کے لیے ڈائیلیسز کی سہولت بڑھا سکیں۔ دوسرے ملک کے سب سے بڑے ‘زیر تعمیر ہسپتال کے پی ایل آئی کے بارے میں‘ کسی روز تفصیل سے میری گزارشات سن لیں۔ از راہ کرم دونوں باتیں‘ مان لیں۔ پھر کہا: وزارتِ صحت میں جو کام دو ماہ میں ہوا‘ اس پہ بھی تو بات کرو۔ اس پہ انشاء اللہ جلد۔ فی الحال صرف یہ کہ دسمبر تک 99 لاکھ خاندانوں کو صحت کا رڈ جاری کر دیئے جائیں گے۔ ہر غریب بچے ‘ عورت اور مرد کا علاج مفت ہو سکے گا۔اگر ڈھنگ سے یہ کام ہو سکا تو یہ ایک تاریخ ساز کارنامہ ہوگا۔ہمارے مقدر میں فی الحال شعبدہ باز لکھّے ہیں۔ کسی قومی پالیسی کے ضمن میں آئی ایس آئی کے ایک سابق سربراہ پہ اعتراض ہوا تو انہوں نے کہا تھا : ہماری محدودات ہیں‘ Limitations‘ خرابی کہیں اور ہے‘ قحط الرّجال ہے‘ قحط الرّجاااااااااال۔عزم و ارادے میں نواز شریف اور زرداری عمران خان کے مقابل ہیچ ہیں۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ حکمرانی ‘بالخصوص مشیروں کے انتخاب میں استعداد کم ہے۔ دوسرا وہی قحط الرّجال۔ نتیجہ یہ ہے کہ اسد عمر سے بہتر وزیرِ خزانہ میسر نہیں۔ اسد عمر چابی کا کھلونا نہیں‘ دبئی میں ان کے ٹاور بھی نہیں لیکن وہی استعداد کا مسئلہ ۔ پنجاب میں ڈپٹی کمشنروں اور ضلعی پولیس افسروں کے تقرر میں اتنی ہی من مانی ہے‘ جتنی شریف مافیا کے عہد میں۔ جونیئر اور بدعنوان افسروں پہ اتنی ہی نوازشات ہوئیں‘ جتنی شریف خاندان کے عہد میں۔ کرپشن پہ شیر شاہ سوری کو کچھ زیادہ اعتراض نہ تھا‘ بعض اوقات تو حوصلہ افزائی بھی کرتے‘ جیسے کہ فواد حسن فواد اور احد چیمہ تا کہ شہزادوں کا خیال رکھیں۔کرپشن پہ ہو سکتا ہے ‘نئی حکومت کو نالائقی پہ اعتراض نہیں۔ مثلاً بیچارہ بزدار جو کچھ جانتا ہی نہیں۔ آسانی سے سیکھ سکتا بھی نہیں۔ کھلم کھلا نہیں کہتے‘ جہاندیدہ اور ہنر مند چوہدری سرور‘ چوہدری پرویز الٰہی اور علیم خان کی رائے بھی یہی ہے۔ محتاط ترین اندازوں کے مطابق نئی تقرریوں میں 30 فیصد سے کم مناسب اور معقول ہیں۔ خان صاحب کو اعتراض ہو توایک ایک افسر کا کچّا چٹھا لکھ دوں؟ کچھ با خبر معلومات کے انبار اٹھائے پھرتے ہیں۔برادرم اعظم سواتی کو فون کیا‘ ملے نہیں۔ ظاہر ہے کہ مصروف ہیں۔ ظاہر ہے پریشان بھی۔ سوشل میڈیابری بلا ہے‘ جس کے پیچھے پڑ جائے‘ زندگی عذاب۔ فرمایا ''گروہ در گروہ آدمی نکلیں گے کہ ان کے اعمال انہیں دکھا دیئے جائیں۔ ذرّہ برابر بھلائی‘ جس نے کی ہوگی‘ دیکھ لے گا۔ ذرہ برابر برائی جس نے کی ہوگی‘ دیکھ لے گا‘‘ یا رب‘ یومِ حشر کیا قریب آ پہنچا کہ علامتیں دکھائی دینے لگیں؟عمران خان یکسو نہیں‘ جس طرح کہ کرکٹ‘ شوکت خانم اور نمل یونیورسٹی میں تھا۔ کنفیوژن کا شکار ہے‘ جس طرح شادیوں کے باب میں رہا۔ایک قوم جس اخلاقی ‘علمی اور جذباتی سطح پہ زندہ ہو‘ ویسے ہی اس کے حکمران ۔ یہ اللہ کا قانون ہے اور اٹل ہے۔ مذمت اور تحقیر کی بجائے‘ عمران خان کی مدد کرنی چاہئے؛ اگرچہ کسی دانا کی مدد انہیں درکار نہیں۔ ہمیشہ نالائق ڈھونڈتے ہیں۔ پھر بھی ان کی مدد کرنی چاہئے۔ سوال ان کا نہیں ہے ملک کے مستقبل کا ۔ژولیدہ فکری ہے اور خود شکنی۔ کوئی بھی شاہراہ پر نہیں‘ سارے کے سارے پگڈنڈیوں پر ۔ سول بھی‘ فوجی بھی‘ مذہبی بھی ‘ سیاسی بھی۔ سب کے سب۔فارسی کے عظیم شاعر بیدلؔ اسد اللہ غالب غالبؔ ایسے عبقری کا رول ماڈل رہے۔ ان کا ایک شعر ہے۔زشیخ مغزِ حقیقت مجو کہ ھمچو حبابسری ندارد اگر وا کنند دستارششیخ سے پر مغز بات کی امید نہ رکھ۔ بلبلے کی مانند ہے۔ دستار کھل جائے تو سر بھی باقی ہی نہ رہے۔افلاس ہے افلاس۔ ایک قوم جس نے سر اٹھا کر جینے کا ابھی عزم ہی نہیں کیا۔ خود احتسابی کی آرزو ہی نہیں۔منزل کی جسے تمنا تو ہے‘ راستہ معلوم نہیں۔ قحط الرّجال‘ قحط الرّجاااااااااال!

You can find here Ayaz Ameer, Ayaz Ameer latest Urdu Columns, amar jaleel columns, amar jaleel, amar jaleel latest columns, Haroon ur Rasheed Columns, Nusrat Javed Columns, Ajmal Niazi Urdu Columns, javed chaudhry, Javed Chaudhry Columns, irshad bhatti, sohail warraich, Sohail Warraich, Sohail Warraich  Columns, Ayaz Ameer Urdu Columns Today, Ayaz Ameer Columns, Ayaz Ameer,rauf klasra, rauf klasra columns, jang columns, hassan nisar, hassan nisar columns, orya maqbool jan columns, orya maqbool jan, Mazhar Barlas Urdu Columns Today,  Mazhar Barlas Latest Columns etc.



اسلام آباد: سپریم کورٹ نے توہین رسالت کیس میں آسیہ بی بی کی سزائے موت کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انہیں بری کرنے کا حکم دے دیا ہے۔

سپریم کورٹ نے مختصر فیصلے کے بعد 57 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ بھی جاری کردیا، یہ فیصلہ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے تحریر کیا جبکہ سپریم کورٹ کے سینیئر جج جسٹس آصف سعید کھوسہ نے الگ اضافی نوٹ تحریر کیا ہے۔

سیدنا علی ؓ نے فرمایا تھا، ’’الدنیا جیفۃ و طلبہا کلاب‘‘ دنیا ایک مردار ہے اور اس کے طلبگار کتے ہیں۔ میرے آقا و مولیٰ حضرت محمد ﷺ کسی بلندی سے مدینہ منورہ میں داخل ہورہے تھے۔ سیدنا جابر بن عبداللہ سے روایت ہے کہ صحابہ اس وقت آپ کے دونوں طرف تھے۔ آپ ﷺ نے بھیڑ کا ایک بچہ جو چھوٹے کانوں والا تھا اسے مرا ہوا دیکھا۔ آپؐ نے اس کا کان پکڑ کر فرمایا، تم میں کون ہے جو اسے ایک درہم میں لینا پسند کرے گا؟ صحابہ کرام نے عرض کیا ہم میں سے کوئی بھی اسے کسی چیز کے بدلے میں لینا پسند نہیں کرتا اور ہم اسے لے کر کیا کریں گے۔ آپؐ نے فرمایا تم چاہتے ہو کہ یہ تمہیں مل جائے؟ صحابہ کرام نے عرض کی، اللہ کی قسم اگر یہ زندہ بھی ہوتا تو پھر بھی اس میں عیب تھا کیونکہ اس کا کان چھوٹا ہے حالانکہ اب تو یہ مردار ہے۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا اللہ کی قسم یہ دنیا اللہ کے ہاں اس سے بھی زیادہ ذلیل ہے جس طرح تمہارے نزدیک یہ مردار ذلیل ہے۔ (صحیح مسلم: کتاب الزہد و الرقائق)۔ یادش بخیر ہمارے دوست افتخار عارف جب آغا حسن عابدی کے لطف و کرم سے لندن میں مقیم تھے تو انہوں نے خوب کہا تھا: شکم کی آگ لئے پھر رہی ہے شہر بہ شہر سگ زمانہ ہیں‘ ہم کیا ہماری ہجرت کیا دنیا کی طلب جب ہوس بن جائے تو پھر انسان کا وہ روپ سامنے آتا ہے جس کے لیے لندن اس کی نسبت کتے سے کی جائے تو اذن الٰہی سے اگر کتے کو زبان مل جائے تو پکار پکار کر کہے، میں تو پیٹ بھر جائے تو سو جاتا ہوں، روکھی سوکھی کھاتا ہوں لیکن مالک کا دروازہ نہیں چھوڑتا، دشمن پر بھونکتا ہوں، دشمن کے ساتھ مل کر مالک پر نہیں بھونکتا لیکن تم انسان تو یہ سب کرتے ہو اور پھر بھی مجھ سے برتر کہلاتے ہوئے، تمہیں اشرف المخلوقات کہلاتے ہوئے شرم نہیں آتی ہے۔ تلاش رزق نہیں بلکہ ہوس رزق میں سرگرداں تمام اخلاقی معیارات سے عاری گروہ میرے ملک میں ہمیشہ رہے ہیں۔ یہ وہ سگ زمانہ ہیں جو چند روٹی کے ٹکڑوں کے لیے دشمن کتوں کے ساتھ مل کر اس مالک پر بھونکتے ہیں جس کی آغوش میں جنم لیتے ہیں جس کی زمین میں ان کے آبائو اجداد دفن ہیں جہاں دفن ہونے کی وصیتیں کرتے ہیں اور جہاں یہ اپنے علاقے میں دھاک بٹھانے کے لیے عالی شان گھر نہ بنائیں تو انہیں چین نہیں آتا۔ ہوس زر میں ڈوبے ہوئے ان ’’سگان زمانہ‘‘ کا سب سے بڑا ٹھکانہ پورے یورپ اور برطانیہ میں اس وقت قادیانی جماعت بن چکی ہے۔ جرمنی کا اخبار "Der Spiegle" ایک کثیرالاشاعت اخبار ہے۔ اس نے اپنی 24 نومبر 2014ء کی اشاعت میں قادیانیوں کے بارے میں ایک مفصل تحقیقی رپورٹ شائع کی جس کی جرمن زبان میں بینر ہیڈ لائن یہ تھی۔ "Die Ahmdiya gilt als islamic he vorzeige Gemenenide" (احمدیہ ایک مسلم شو پیس کمیونٹی ہے)۔ دوسری ہیڈ لائن یہ ہے کہ ’’یہ کئی سالوں سے تارکین وطن کو بلیک میل کر رہی ہے۔‘‘ اس رپورٹ میں ایک انجینئر لقمان احمد تارڑ کا کیس مثال کے طور پر پیش کیا گیا جو دس سال سے تارک وطن ہے اور اس کی سیاسی پناہ کا مقدمہ آج بھی چل رہا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس نے پناہ لینے کے لیے وسبیڈن "Wiesbaden" کے احمدیہ مرکز میں جا کر قادیانیت کا اقرار کیا، وہاں جا کر اس نے روزانہ ان کے مرکز جا کر عبادت شروع کی، کئی سال گزرنے کے بعد اس کو قادیانیوں کے مرکز فرینکفرٹ سے مناسب "Averge" کا سرٹیفکیٹ دیا گیا جس کا مطلب تھا کہ وہ ابھی تک پکا قادیانی نہیں ہوا، اس لیے اس کے مقدمے میں جماعت اسے سپورٹ نہیں کرے گی۔ اس کے بعد اخبار نے پورے جرمنی میں قادیانی جماعت کی سرگرمیوں کا جائزہ لیا اور اس اخبار کے ساتھ Ard Hagazine کی صحافتی ٹیم بھی شامل ہو گئی۔ ان کے مطابق احمدیہ سربراہان نے پاکستان اور دیگر ملکوں میں سیاسی پناہ حاصل کروانے کا ایک دھندا شروع کر رکھا ہے۔ پاکستان میں اس جماعت کے نمائندے ایک شخص کو جرمنی میں پناہ دلانے کے لیے بیس ہزار یورو لیتے ہیں۔ ایک عام پاکستانی کو ان کے خط پر جرمنی میں داخلہ مل جاتا ہے۔ اس لیے کہ جرمنی میں 2013ء میں احمدیہ (قادیانی) جماعت کو جرمن چرچ کے برابر کا درجہ دے دیا گیا ہے۔ جرمن سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنما لیل آگھن Lale Aghan نے کہا ہے کہ یہ فیصلہ مذہبی نہیں بلکہ ایک سیاسی تماشا ہے۔ جب ایک عام پاکستانی ان کے خط پر جرمنی میں داخل ہوتا ہے تو پھر وہ ان کی بدترین غلامی میں چلا جاتا ہے۔ چندہ نہ دینے، ان کے اجتماعات میں شرکت نہ کرنے، احتجاج نہ کرنے پر اسے پاکستان واپس ڈی پورٹ کرنے کی دھمکیاں دی جاتی ہیں اور اس کے لیے قادیانی (احمدیہ) جماعت کا یہ سرٹیفکیٹ ہی کافی ہے کہ اس کا احمدیہ جماعت سے تعلق غلط ثابت ہوا ہے۔ جرمنی کے محکمہ خارجہ کی ایک رپورٹ کا تذکرہ بھی اخبار نے کیا ہے جس کے مطابق ان پاکستانیوں کی تعداد میں بے شمار اضافہ ہوا ہے جو یہاں کام کرنے آئے لیکن پھر وہ سیاسی پناہ لینے کے لیے قادیانی ہو گئے۔ 2011ء میں جرمنی کے پراسیکیوشن محکمہ نے قادیانی جماعت کے چار ارکان پر مقدمہ بنایا کہ انہوں نے لاتعداد پاکستان سے آئے لوگوں کو غیرقانونی طور پر جرمنی میں داخل کروایا۔ جرمنی کے محکمہ مائیگریشن و مہاجرین کے ترجمان نے کہا ہے کہ ہم نے اپنے محکمہ کے افراد کو خاص طور پر ہدایات دی ہیں کہ قادیانیوں کی طرف سے جاری کئے گئے اکثر سرٹیفکیٹ مشکوک ہیں اس لیے ان کا سختی سے جائزہ لینا ضروری ہے۔ یہ صرف ایک ملک کی کہانی نہیں ہے۔ قادیانی جس ملک جا کر آباد ہوئے۔ انہوں نے اس مکروہ دھندے سے اپنی تعداد میں اضافہ کیا اور پھر ان تارکین وطن کو مسلسل غلاموں کی طرح بلیک میل کیا۔ میرے سامنے اس وقت برطانیہ کی اعلیٰ عدالت کا ایک فیصلہ موجود ہے جو تین ججوں Lord Jusitce Moore Brich (لارڈ جسٹس مورے برگ)، Lord Justice Tomilson (لارڈ جسٹس ٹاملسن) اور Lord Justice Kitchen (لارڈ جسٹس کچن) نے چودہ جولائی 2016ء کو تحریر کیا۔ اس میں ایک قادیانی نے درخواست کی تھی کہ وہ پاکستان میں خوف اور دہشت کی زندگی گزار رہا تھا اس لیے اسے سیاسی پناہ دی جائے۔ اس کی اس کہانی کو نیچے کی دو عدالتیں مسترد کر چکی تھیں۔ یہ قادیانی ایک استاد تھا اور اس کے بقول اسے دو جگہوں سے قادیانی ہونے کی وجہ سے نکلنا پڑا لیکن پھر 2004ء میں اسے پولیس میں ملازمت مل گئی، وہ دس سال تک پولیس ملازمت کرتا رہا اور پھر اپنے بھائی کی شادی میں شرکت کے لیے اس نے 2014ء میں برطانیہ کا ویزہ لیا اور احمدیہ جماعت کے سالانہ جلسے میں بھی شریک ہوا۔ جب وہ واپس گیا تو اس نے اپنے موبائل میں جو قادیانی جلسے کی تصویریں بنائی تھیں وہ ایک کلرک نے دیکھیں جو ختم نبوت سے تعلق رکھتا تھا، اس نے اسے ہراساں کرنا شروع کردیا، اس لیے وہ ’’پولیس والا‘‘ اب پاکستان میںنہیں رہ سکتا۔ عدالت نے بنیادی سوال اٹھائے، کہا کیا آپ کو پاکستان کے مجوزہ قانون کے مطابق عبادت کرنے کی اجازت ہے، اپنے آپ کو قادیانی (احمدی) کہہ کر ملازمت کرنے، مکان خریدنے، گاڑی لینے، مکان کھولنے، فیکٹری لگانے کی آزادی ہے۔ ظاہر یہ سب آزادیاں تو میسر ہیں۔ اس کا جب وہ جواب نہ دے سکا تو عدالت نے فیصلہ کیا کہ قادیانی یہ ثابت کرنے میں ناکام ہیں کہ وہ پاکستان میں دہشت و خوف کا شکار ہیں۔ لیکن سگ زمانہ اور ہوس مال کے لیے دنیا کے مردار پر ٹوٹ پڑنے والوں کا کیا کریں جو اس دنیا میں تو اپنے ملک کو بدنام کرکے سیاسی پناہ لے لیتے ہیں لیکن کیا وہ آخرت میں اللہ کی ناراضگی اور رسول اکرم ﷺ کی شفاعت سے محرومی کا طوق پہننے کی سکت رکھتے ہیں؟ لیکن سگ زمانہ تو کتوں سے بھی بدتر ہوتا ہے۔ مسلسل مردار پر ہی بسیرا کرتا ہے۔ 

You can find here Ayaz Ameer, Ayaz Ameer latest Urdu Columns, amar jaleel columns, amar jaleel, amar jaleel latest columns, Haroon ur Rasheed Columns, Nusrat Javed Columns, Ajmal Niazi Urdu Columns, javed chaudhry, Javed Chaudhry Columns, irshad bhatti, sohail warraich, Sohail Warraich, Sohail Warraich  Columns, Ayaz Ameer Urdu Columns Today, Ayaz Ameer Columns, Ayaz Ameer,rauf klasra, rauf klasra columns, jang columns, hassan nisar, hassan nisar columns, orya maqbool jan columns, orya maqbool jan, Mazhar Barlas Urdu Columns Today,  Mazhar Barlas Latest Columns etc.



چاچا طیفا گوجرانوالہ شہر کا ایک دلچسپ کردار تھا‘ وہ خوبصورت اور خوش لباس تھا‘ اچھا کھاتا‘ اچھا پیتا اور اچھا رہتا تھا‘ ہمیشہ طلے والا کھسہ اور بوسکی کی قمیض پہنتا تھا اور لٹھے کا لاچا باندھتا تھا‘ دہی اور پراٹھا چاچے طیفے کا ناشتہ ہوتا تھا اور وہ ہمیشہ شہر کے معززین میں بیٹھتا تھا لیکن چاچے نے اس سارے تام جھام اور شب شبا کے باوجود پوری زندگی تنکا دہرا نہیں کیا۔

والدین نے اسے اسکول میں داخل کرایا مگر چاچا دوسری تیسری جماعت سے آگے نہ جا سکا‘ والدین نے کام سکھانے کی کوشش کی لیکن چاچے نے ہر کوشش ناکام بنا دی‘ وہ پوری زندگی کوئی کام نہیں سیکھ سکا‘ وہ لڑکپن تک والدہ کے پلو کے سائے میں رہا‘ ماں لوگوں کے گھروں میں برتن مانجھ کر اسے پالتی رہی‘ وہ ہمسایوں سے پراٹھا‘ مکھن اور لسی مانگ کر لاتی تھی اور چاچا کھا پی کر سو جاتا تھا‘ جوان ہوا تو یہ ذمے داری اس کی بیگم کے سر پر آ پڑی‘ وہ بے چاری سارا دن لوگوں کے گھروں میں جھاڑو پوچا کرتی‘ شام کو تھکی ہاری گھر آتی۔

دوسروں کے گھروں سے لایا ہوا سالن گرم کرتی اور چاچا کھا پی کر‘ ڈکار مار کر سو جاتا ‘ چاچے کو ہر صبح دہی اور پراٹھا لازمی چاہیے ہوتا تھا‘ بیوی ہر صورت یہ بندوبست کر کے رکھتی تھی‘ وہ اٹھتا تھا‘ چنگیر سے پراٹھا نکالتا تھا‘ دہی کے ساتھ کھاتا تھا‘ صاف کپڑے پہنتا تھا اور مونچھوں کو تاؤ دے کر باہر نکل جاتا تھا‘ باہر اس کے تین چار ٹھکانے ہوتے تھے‘ وہ شہر کے دو سیاستدانوں کے ڈیروں پر بیٹھ جاتا تھا یا پھر فراخ دل سیٹھ اس کا ٹارگٹ ہوتے تھے‘ وہ ان کے پاس بیٹھتا تھا اور پورا دن ان کی ہاں میں ہاں ملا کر گزار دیتا تھا‘ وہ جو کہتے تھے چاچا ’’واہ واہ کیا بات ہے‘‘ کا نعرہ لگا کر حقے کی نلی منہ میں دبا لیتا تھا۔
پنجاب کے زیادہ تر خوش حال لوگوں‘ سیٹھوں اور سیاستدانوں کو چاچے طیفے جیسے ویلوں کی ضرورت رہتی ہے‘ یہ لوگ ان کے لیے ڈھول کی حیثیت رکھتے ہیں‘ یہ بجتے ہیں تو ان کی واہ واہ ہوتی ہے لہٰذا آپ کو آج بھی پنجاب کے زیادہ تر ڈیروں پر چاچے طیفے جیسے لوگ نظر آتے ہیں‘ یہ ڈیرے عمر بھر چاچے کا دن گزارتے رہے‘ یہ اسے حقہ‘ پانی‘ لسی اور دوپہر کا کھانا فراہم کرتے رہے‘ چاچے کو بعض اوقات رات کا کھانا بھی ان سے مل جاتا تھا‘ یہ اسے نئے کپڑے اور جوتے بھی لے دیتے تھے اور اسے کبھی کبھار سو دو سو روپے بھی دے دیے جاتے تھے۔

چاچا سارا دن ڈیرے بھگتا کر رات کو تھک ہار کر گھر آجاتا تھا‘ بیوی نے صاف ستھرا بستر بچھایا ہوتا تھا‘ وہ بستر پر گر کر خراٹے لینے لگتا تھا اور وہ اگر کبھی بھوکا ہوتا تھا تو گھر کے دروازے پر کھڑا ہو کر بیوی سے پوچھ لیتا تھا ’’صغریٰ آج تم کیا لائی ہو‘‘ بیوی ڈرتے ڈرتے کھانے کے بارے میں بتاتی تھی اور اگر کھانا چاچے کی مرضی کا نہیں ہوتا تھا تووہ چاچی کی ٹھیک ٹھاک ٹھکائی کر دیتا تھا‘ سزا کے اس عمل کے دوران چاچا بار بار یہ کہتا تھا ’’تمہیں ایسے کنجوس لوگوں کے گھروں میں کام کرنے کی کیا ضرورت ہے‘ یہ ہر دوسرے دن دال پکا لیتے ہیں‘انھیں شرم ہی نہیں آتی‘‘ وہ چاچی کی ٹھکائی کے بعد وہی سبزی اور وہی دال کھاتا تھا اور بستر پر ڈھیر ہو جاتا تھا۔

صبح اٹھ کر معمول کے مطابق دہی اور پراٹھا پھڑکاتا تھا اور یہ دیکھے بغیر کہ اس کے بچوں کو ناشتہ نصیب ہوا یا نہیںوہ بوسکی کی قمیض پہن کر باہر نکل جاتا تھا‘ چاچے نے پوری زندگی یہ معمول جاری رکھا‘ بیوی بیمار ہوئی یا کوئی بچہ‘ محلے والے پیسے جوڑ کر اس کا علاج کرا دیتے تھے‘ بچیوں کی شادیاں عزیز‘ رشتے داروں نے کرا دیں۔

بچے کام کی عمر کو پہنچے تو وہ ورکشاپوں میںدھندہ کر کے چاچے کے دہی پراٹھے کا بندوبست کرتے رہے اور وہ اگر خود کبھی بیمار ہو گیا تو کسی ڈیرے دار‘ کسی سیٹھ نے دواء دارو کر دیا‘ چاچا ایک بھرپور زندگی گزار کر خالق حقیقی سے جا ملا‘ مرنے کے بعد بھی اہل محلہ نے پیسے جمع کیے‘ کفن دفن کا بندوبست کیا‘ بچوں نے مانگ تانگ کر سوئم اور چالیسواں کر دیا‘ ایک سیٹھ نے چاچے کی قبر پکی کرا دی اور یوں چاچا طیفا چاچا مرحوم اور اللہ بخشے چاچا طیفا ہو گیا۔

چاچا طیفا پاکستان کا صرف ایک کردار نہیں‘ آپ اپنے دائیں بائیں نظر دوڑائیں‘ آپ کو ایسے بے شمار چاچے طیفے مل جائیں گے‘ آپ کے خاندان کے اندر بھی ایسے لوگ ہوں گے ‘یہ لوگ پوری عمر تنکا دہرا نہیں کرتے لیکن یہ اس کے باوجود ایک شاندار اور بھرپور زندگی گزارتے ہیں‘ پنجابی میں ایسے لوگوں کو ’’مفت بر‘‘ کہا جاتا ہے‘ مفت بروں کی معیشت کے چار سورس ہوتے ہیں‘ رشتے دار‘ ادھار‘ ڈیرے اور بول بچن۔

یہ لوگ پوری زندگی عزیزوں اور رشتے داروں کے ٹکڑے توڑتے ہیں‘ یہ شروع میں والدین کی کمائی پر پلتے ہیں‘ پھر کوئی بھائی‘ بہن یا کزن ان کی ذمے داری اٹھا لیتا ہے‘ کوئی نہ کوئی رشتے دار ترس کھا کر انھیں رشتہ بھی دے دیتا ہے اور پھر یہ لوگ سکائی لیب کی طرح بیوی کے بھائیوں کے سر پر آ گرتے ہیں‘ یہ‘ ان کی بیوی اور بچے سالوں کی کمائی پر پلتے رہتے ہیں‘ اگر سالوں میں دم خم نہ ہو تو ان کی بیوی لوگوں کے برتن مانجھ کر‘ لوگوں کے فرش دھو کر انھیں اور اپنے بچے پال لیتی ہے۔

ادھار ان کا دوسرا سورس آف انکم ہوتا ہے‘ یہ پوری زندگی دائیں بائیں موجود لوگوں کی جیبوں سے رقم نکلواتے رہتے ہیں‘ یہ جس سے ملتے ہیں ایمرجنسی تخلیق کر کے اس سے دو چار ہزار روپے نکلوا لیتے ہیں اور وہ دن مزے سے گزار لیتے ہیں‘ ڈیرے بھی ان کا سورس آف انکم ہوتے ہیں‘ یہ کسی نہ کسی ایسے شخص کے ڈیرے‘ بیٹھک یا تھڑے پر جا بیٹھتے ہیں جہاں سے انھیں تمباکو‘ نسوار اور کھانا مل جاتا ہے اور ان کا چوتھا سورس آف انکم بول بچن ہوتا ہے‘ یہ چرب زبانی کے استاد ہوتے ہیں۔

یہ معمولی سے مفاد کے لیے جھوٹ کا انبار لگا دیتے ہیں‘ یہ جھوٹ ان کی فیکٹری‘ ان کی دکان ہوتے ہیں‘ یہ پوری زندگی زبان کی کمائی کھاتے ہیں‘ میں اکثر اپنے دوستوں سے عرض کرتا ہوں ہمارے ملک میں تین سہولتیں ہر شخص کو حاصل ہیں‘ یہ دنیا کا واحد ملک ہے جس میں ہر شخص کی شادی ہو جاتی ہے۔

آپ کو سڑک پر ایسے درجنوں فقیر ملیں گے جن کے پیچھے ان کی بیوی بھی کھڑی ہوگی اور تین چار بچے بھی‘ یہ سہولت دنیا میں کسی دوسرے ملک کے باسیوں کو حاصل نہیں‘ دو‘ ہمارے ملک میں کوئی بھی شخص تنکا دہرا کیے بغیر شاندار زندگی گزار سکتا ہے‘ ہمارا پورا ملک ایسے مفت بروں سے بھرا ہوا ہے اور تین‘ ہمارے ملک میں ہر شخص کو قبر نصیب ہو جاتی ہے‘ ہم لوگ اجنبی شخص کے لیے بھی کفن دفن کا بندوبست کر دیتے ہیں۔

باقی دنیا میں جو شخص افورڈ نہیں کر سکتا حکومت اس کو اجتماعی قبر میں دفن کر دیتی ہے یا پھر اس کی لاش جلا کر راکھ فروخت کر دیتی ہے اور یہ راکھ بعد ازاں دندان سازی میں استعمال ہوتی ہے جب کہ مفت خوروں کے اس ملک میں لاوارث لاشیں بھی لاوارث نہیں رہتیں‘ انھیں بھی عزت‘ احترام اور جنازہ نصیب ہو جاتا ہے۔

آپ اگر کسی دن اپنے اردگرد موجود مفت خوروں کو دیکھیں گے اور پھر اپنے ملک کی نفسیات پر نظر ڈالیں گے تو آپ بڑی آسانی سے ارض پاک کو سمجھ جائیں گے‘ ہم من حیث القوم مفت بر اور منگتے ہیں‘ ہم نے تو آزادی بھی لڑ کر نہیں لی تھی مانگ کر لی تھی‘ ہم منگتے پیدا ہوتے ہیں اور منگتے فوت ہوتے ہیں‘ ہمارے نظریات‘ افکار‘ روایات‘ مذہب اور رہن سہن تک ادھار اور مفت خوری پر مبنی ہے‘ ہم سب اپنی ذات میں چاچا طیفا ہیں‘ ہم مانگ کر دہی پراٹھا کھاتے ہیں‘ سارا دن کاہل بیل کی طرح دوسروں کے دروازے پر پڑے رہتے ہیں اور شام کو یہ طعنہ دے کر ’’تم روز دال مانگ کر لاتی ہو‘‘ بیوی کو پھینٹا لگا دیتے ہیں۔

ہم ستر سال میں اپنی مسجدیں تک خود مختار نہیں کر سکے‘ ہر مسجد کے منبر سے چندے کی درخواست ہوتی ہے اور نمازی مسجد کو دس بیس روپے دے کر ہی گھر آتے ہیں‘ ہمارے سرکاری دفتر ہوں‘ اسکول ہوں‘ اسپتال ہوں یا پھر ڈیم ہوں ہمارا سارا نظام چندے اور خیرات پر چل رہا ہے‘ امداد اور قرض ہماری پوری معیشت ان دو ستونوں پر کھڑی ہے چنانچہ ہماری ہر حکومت بھکاری ہوتی ہے اور وزیر خزانہ چیف بھکاری‘ ہم جب تک جھولی نہ پھیلا لیں‘ ہمیں اس وقت تک آرام نہیں آتا اور یہ نیچے سے لے کر اوپرتک ہماری سائیکی ہے۔

آپ دیکھ لیجیے ہماری حکومت نے جب تک پیسے نہیں مانگے تھے یا حکومت کو بھیک نہیں ملی تھی ہماری پوری قوم افسردگی اور پژمردگی کا شکار تھی‘ ہماری اسٹاک ایکسچینج روزانہ کی بنیاد پر نیچے گر رہی تھی اور روپیہ کمزور سے کمزور ہوتا چلا جا رہا تھا لیکن سعودی عرب نے ہمیں جوں ہی قرضہ اور مؤخر ادائیگیوں پر پٹرول دینے کا اعلان کیا (ابھی صرف اعلان ہوا ہے‘ پیسے نہیں ملے)ہماری رگوں میں تازہ خون دوڑنے لگا‘ ہم ایک دوسرے کو مبارک باد بھی دینے لگے اور ہماری اسٹاک ایکسچینج اور روپیہ بھی مضبوط ہوگیا‘ ہم دوبارہ زمین پر آ گئے چنانچہ آپ خود فیصلہ کیجیے قدرت چاچے طیفے جیسے لوگوں کی قوم کو جوتے نہیں مارے گی تو کیا کرے گی؟

آپ کسی دن سڑک پر کھڑے ہو کر مانگتے لوگوں اور حکومت دونوں کا موازنہ کر لیجیے آپ کو ان دونوں میں کوئی فرق نہیں ملے گا‘ آپ کو سڑک کا بھکاری مینڈیٹ کے بغیر بھکاری ملتا ہے جب کہ ہماری حکومت مینڈیٹ یافتہ بھکاری ہوتی ہے‘ دونوں کی نظریں سخی تلاش کر رہی ہوتی ہیں اور ہاتھ دوسروں کے سامنے پھیلے ہوتے ہیں لہٰذا جب پوری قوم ایسی ہو گی تو پھر اللہ کا فضل کیسے اور کہاں سے نازل ہو گا؟اور یہ حقیقت ہے اللہ سب کی حالت بدل دیتا ہے لیکن یہ بھکاریوں کو مرنے تک محتاج رکھتا ہے۔

You can find here amar jaleel columns, amar jaleel, amar jaleel latest columns, Haroon ur Rasheed Columns, Nusrat Javed Columns, Ajmal Niazi Urdu Columns, javed chaudhry, Javed Chaudhry Columns, irshad bhatti, sohail warraich, Sohail Warraich, Sohail Warraich  Columns, Ayaz Ameer Urdu Columns Today, Ayaz Ameer Columns, Ayaz Ameer,rauf klasra, rauf klasra columns, jang columns, hassan nisar, hassan nisar columns, orya maqbool jan columns, orya maqbool jan, Mazhar Barlas Urdu Columns Today,  Mazhar Barlas Latest Columns etc.


مولانا فضل الرحمٰن کا دورہ لاہور ناکام ہوگیا ہے، انہوں نے نواز شریف کے ساتھ دو گھنٹوں کے دوران کئی مرتبہ’’دھوبی پٹکا‘‘ مارنے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔ اس ناکامی کے بعد مولانا صاحب کو سیاست کی چالبازیوں سے تھوڑا وقت نکال کر قرآن پاک کا بغور مطالعہ کرنا چاہئے تاکہ پتہ چل سکے کہ اللہ تعالیٰ انسانوں کے مابین دنوں کو پھیرتا رہتا ہے۔ وہ اپنے بندوں کو کبھی مال کے گھاٹے سے اور کبھی اولاد کے گھاٹے سے آزماتا ہے۔ ہوسکتا ہے یہ مولانا صاحب کی آزمائش کے ایام ہوں، آزمائش کی ان گھڑیوں میں مولانا صاحب کو یہ ایام گھر پر گزارنے چاہئیں۔ مولانا سے میری پرانی نیاز مندی ہے اس لئے مولانا کو میرا مفت مشورہ ہے کہ مولانا صاحب آپ جن دو جماعتوں کو اے پی سی میں لانے کے لئے ضدکررہے ہیں، وہ دونوں ہی طوفان کی زد میں ہیں۔ اس کے علاوہ دونوں کا خیبر پختونخوا میں برا حال ہے، آپ کا اصل میدان بھی خیبر پختونخوا ہے۔ ان دونوں جماعتوں کا مستقبل میں بھی اس صوبے میں کمال دکھانے کا کوئی ارادہ نہیں، آج نہیں تو کل، اگر آپ نے اقتدار کی راہ اختیار کرنی ہی ہے تو پھر آپ کو پی ٹی آئی سے مراسم بڑھانا پڑیں گے، اگر آپ ایسا نہ کرسکے تو پھر خیبر پختونخوا میں آپ کے حصے میں کچھ نہیں آئے گا۔ بہتر یہی ہے کہ آپ ورد وظیفہ کے ذریعے راستہ نکالنے کی کوشش کریں۔ ابھی آپ کو صرف یہ شکوہ سننا پڑا ہے کہ ’’میری اور مریم کی گرفتاری کے وقت اے پی سی کیوں یاد نہ آئی.....‘‘ آنے والے وقت میں آپ کو مزید شکوے سننا پڑسکتے ہیں کیونکہ بہت سی گرفتاریاں ہونے والی ہیں، آنے والے ماحول سے پریشان ہو کر آصف زرداری نے پریس کانفرنسیں شروع کردی ہیں، دوستوں کی گرفتاریوں کے شکوے شروع کردئیے ہیں، جعلی اکائونٹس کو’’ٹریڈنگ اکائونٹس‘‘ کا نام دینا شروع کردیا ہے مگر یہ سارے حربےکام آتے دکھائی نہیں دے رہے، کیونکہ اس سلسلے میں بہت سا کام ہوچکا ہے، یہ کام پچھلے کئی برس سے جاری تھا، اب تو اس کام کا نتیجہ برآمد ہورہا ہے۔ مولانا صاحب نے جن پتوں پر تکیہ کیا ہوا ہے، وہ پتے کچھ دنوں میں ہوا دینا شروع کردیںگے۔ نئی نئی پریشانیاں سامنے آنے والی ہیں، شریف خاندان کو ابھی بہت سے مراحل سے گزرنا ہے، مراحل کی تکمیل پر وہ سیاست کے قابل نہیں رہیں گے، انہیں بھی مفت مشورہ ہے کہ وہ کسی صاحب کشف سے ملیں، وہ انہیں بہت کچھ بتادے گا، حتیٰ کہ بیگم کلثوم نواز مرحومہ کے حالات بھی بتادے گا۔ لاہور کے پہلوانوں کا خاندان میاں شیر محمد شرقپوری کا مرید رہا ہے، میاں صاحب خود صاحب کشف القبور تھے ہوسکتا ہے کہ ان کی اولاد میں سے کوئی ایسا ہو یا کسی اور جگہ کہیں کوئی ایسا ہو۔

صاحبو! لوگ پوچھتے ہیں کہ ایک ایسے طیارے کی پاکستانی میڈیا میں دھوم ہے جو پاکستان میں آیا ہی نہیں، پاکستانی میڈیا ایک افواہ پر تو بہت سرگرم ہے لیکن یہی پاکستانی میڈیا’’وال اسٹریٹ جرنل‘‘کی اسٹوری پر کیوں خاموش ہے، یہی پاکستانی میڈیا انگلستان کے اخبار’’دی مرر‘‘ کی حقیقت پر مبنی خبروں پر کیوں چپ ہے؟ اسی لئے لوگ بددل ہوتے جارہے ہیں کہ یہ کیسا میڈیا ہے اور یہ کیسے میڈیا پرسنز ہیں جو افواہ سازی کو تو گرم جوشی مہیا کرتے ہیں مگر حقیقت کو لوگوں سے چھپانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کبھی آپ نے سوچا کہ یہ سب کچھ کیوں ہورہا ہے، شاید یہ اس لئے ہورہا ہے کہ سالہا سال تک لوٹ مار کرنے والی سیاسی جماعتوں کے گرد گھیرا تنگ ہورہا ہے، ایک سادہ سا سوال قوم پوچھتی ہے پچھلے دس سال میں جو چوبیس ہزار ارب قرضہ لیا، ا ٓخر وہ کہاں گیا، کہاں خرچ ہوا، کون لوٹ کر لے گیا، اس کا کوئی حساب کتاب ہونا چاہئے۔ اس سادہ سے سوال کا جواب صرف گرفتاریاں ہی دے سکتی ہیں، کوئی کچھ بھی کرلے گرفتاریوں کا یہ عمل رکنے والا نہیں بلکہ مزید گرفتاریاں ہوں گی، ایسے ایسے لوگ گرفتار ہوں گے جنہیں لوگ بڑاپارسا سمجھتے ہیں۔ اس میں ایسے لوگ بھی ہوں گے جنہوں نے مذہب کا لبادہ اوڑھا ہوا ہے، بس تھوڑا سا انتظار خاص طور پر سابق باریش وزیر خزانہ انتظار کریں۔ دیانتداری کی جنگ میڈیا کے زورپر نہیں جیتی جاسکتی، اس کے لئے سچا اور امانتدار ہونا ضروری ہے، چیف جسٹس آف پاکستان میاں ثاقب نثار کا کہنا ہے کہ’’پہلی بار ملک ترقی کی طرف جاتا محسوس ہورہا ہے‘‘ یہی سچ ہے ورنہ ماضی کے حالات کی گواہی سرور ارمان کے یہ اشعار دے رہے ہیں کہ؎

شب تاریخ چپ تھی، درودیوار چپ تھے
نمود صبحِ نو کے سبھی آثار چپ تھے
ہوائیں چیختی تھیں، فضائیں گونجتی تھیں
قبیلہ بٹ رہا تھا مگر سردار چپ تھے
زمانہ چاہتا تھا کہانی کا تسلسل
مگر پردے کے پیچھے سبھی کردار چپ تھے

(کالم نگار کے نام کیساتھ ایس ایم ایس اور واٹس ایپ رائےدیں00923004647998)

You can find here amar jaleel columns, amar jaleel, amar jaleel latest columns, Haroon ur Rasheed Columns, Nusrat Javed Columns, Ajmal Niazi Urdu Columns, javed chaudhry, Javed Chaudhry Columns, irshad bhatti, sohail warraich, Sohail Warraich, Sohail Warraich  Columns, Ayaz Ameer Urdu Columns Today, Ayaz Ameer Columns, Ayaz Ameer,rauf klasra, rauf klasra columns, jang columns, hassan nisar, hassan nisar columns, orya maqbool jan columns, orya maqbool jan, Mazhar Barlas Urdu Columns Today,  Mazhar Barlas Latest Columns etc.

کتابیں ملتی رہتی  ہیں، جنہیں عموماً دو حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے ۔اول وہ کتابیں جنہیں گھونٹ گھونٹ پیا پڑھا جاتا ہے، دوسری وہ جنہیں ’’باٹم اپ‘‘ کئےبغیر گزارہ نہیں۔گزشتہ دنوں ملنے والی دو کتابیں بیحد اہم اور قابل ذکر ہیں جن میں سے ایک برادر محترم ضیاء شاہد کی سنسنی خیز ’’میرا دوست نواز شریف ‘‘ جس کی تقریب رونمائی پر شیخ رشید نے اس کتاب کے عنوان پر اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ کسی کا دوست نہیں ‘‘ تقریب رونمائی کے مقررین میں ،میں بھی شامل تھا لیکن ایمرجنسی میں مجھے لائل پور (فیصل آبا د) جانا پڑا، شریک نہ ہوسکا جس کا افسوس رہے گا لیکن مجبوری تھی ۔یہ کتاب شروع کی تو رات گئے ختم کرکے اٹھا اور اب دوسری بار ہائی لائیٹر ساتھ رکھ کر پڑھ رہا ہوں کہ اس سے نواز شریف تو کیا پاکستانی سیاست اور سیاست دانوں کو سمجھنے میں آسانی ہوتی ہے، بالخصوص اس خودغرض اور کاروباری سیاست کو جسے جنرل ضیاءالحق نے متعارف کرایا اور ملک آج تک اسے بری طرح بھگت رہا ہے ۔دوسری کتاب تھی صحافت کے استاد اعظم پروفیسر ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کی ’’سسکتی مسکراتی زندگی ‘‘ جو ان کی خودنوشت اور سوانح عمری ہے جس پر تبصرہ کرتے ہوئے سابق وائس چانسلر یونیورسٹی آف سرگودھا ڈاکٹر محمد اکرم چودھری صاحب نےپانچ دریائوں کو ایک کوزے میں بند کرتے ہوئے یہ غضب کا جملہ لکھا ہے کہ ’’سسکتی مسکراتی زندگی ‘‘ پنجاب یونیورسٹی کا ایک دلچسپ نوحہ ہے ‘‘میں ڈاکٹر مغیث الدین شیخ کو نہ جاننے کے برابر جانتا ہوں کیونکہ ملاقاتیں ہی تین ساڑھے تین سے زیادہ نہیں جبکہ میں تو ان نالائقوں میں سے ہوں جو تین سو ملاقاتوں کے بعد بھی لوگوں کا اصل پہچاننے میں ناکام رہتے ہیں۔ویسے سچ یہ ہے کہ میں نے لوگوں کی بھاری اکثریت کو کبھی جاننا چاہا بھی نہیں ۔ڈاکٹر مغیث کی کتاب میں ’’فہرست‘‘ دیکھتے ہوئے اپنے نام پر نظر پڑی تو میں چونک گیا کہ ہم تو ڈھنگ سے ایک دوسرے کو جانتے بھی نہیں۔پڑھا تو حیران رہ گیا کہ اس زمین پر اس زمانے میں ایسی عالیٰ ظرفی ......کئی سال پہلے ڈاکٹر مغیث یونیورسٹی میں کسی سازش کا شکار ہوئے ۔مجھے ادھر ادھر سے علم ہوا تو تن بدن میں آگ لگ گئی ۔میں بنیادی طور پر ایک ’’ نون سینس ‘‘ قسم کا آدمی ہوں۔بیہودگی دیکھ کر میٹر گھوم جاتا ہے۔ میں نے مزید معلومات جمع کیں تو اندازہ ہوا کہ ایک معصوم آدمی کو خواہ مخواہ سکینڈلائز کرنے کی مکروہ کوشش ہو رہی ہے ۔میں نے ڈاکٹر صاحب کے حق اور دفاع میں کالم لکھا اور تب ہی بھول بھال گیا لیکن اتنے بہت سے برسوں کے بعد ڈاکٹر صاحب کی سوانح حیات میں یہ واقعہ پڑھ کر دنگ رہ گیا ۔لکھتے ہیں’’وہ کالم اس شخص نے لکھا جس کے ساتھ نہ میرا اٹھنا بیٹھنا تھا نہ کبھی طعام و سفر کا رشتہ رہا تھا ۔وہ کالم پڑھ کر میری آنکھوں میں آنسو آ گئے۔جب میں اس آزمائش کی گھڑی میں تنہا کھڑا تھا اور دائیں بائیں اپنے دوستوں کی تلاش میں تھا کہ کون میرے حق میں گواہی دینے کو تیار ہو گا، اس کڑے امتحان میں حسن نثار نے میرے حق میں کالم لکھ کر گواہی دی۔اس نے مجھ جیسے انجان شخص کے ساتھ محسن کا سا سلوک کیا۔میں شاید اس کا یہ احسان ساری زندگی نہ بھلا سکوں‘‘۔جس شخص کو اتنے برسوں بعد اتنی معمولی سی بات بھی نہ بھولی ہو، اس کا کردار اور کتاب کیسی ہو گی کہ یہاں تو قدم قدم پر حضرت علیؓ کا وہ قول یاد آتا ہے کہ ’’کسی کم ظرف پر احسان کرو تو اس کے شر سے ڈرو‘‘(مفہوم)ڈاکٹر مغیث کی خود نوشت اس تعریف پر پوری اترتی ہے کہ ’’اوریجنیلٹی ، سادگی اور برجستگی ہی کسی عمدہ تخلیق کی بنیادی خصوصیات ہیں‘‘۔تصنع، بناوٹ، کہانی کاری، پچی کاری اور خواہ مخواہ کی فنکاری سے پاک بچپن سے آج تک کی کہانی ندیا کی سی روانی کے ساتھ بہتی اور بہت کچھ کہتی چلی جاتی ہے۔جیسا ڈاکٹر اکرم چودھری لکھتے ہیں کہ یہ سوانح اور بہت کچھ ہونے کے ساتھ ساتھ پنجاب یونیورسٹی کا ایک دلچسپ نوحہ بھی ہے ۔یونیورسٹی کے ماحول ہی نہیں بہت سے سابق وائس چانسلرز کا پوسٹ مارٹم بھی محو ماتم ہے اور پھر امریکہ اور یہاں کی پڑھائی، اس کے اقدار معیار کا موازنہ کہ ان کے اور ہمارے پی ایچ ڈیز میں حقیقی فرق اور فاصلہ کیوں، کتنا اور کیسا ہے ؟بیرون ملک امریکہ میں حصول تعلیم کے دوران کا باریک بین مشاہدہ ملکی سیاست میں طلبا یونینز کا کردار، گومل یونیورسٹی کے تجربات اور سب سے بڑھ کر وائس چانسلر عبدالعلی خان کا دلچسپ ،منفرد اور ڈرامائی کردار جو اصلی سے کہیں زیادہ افسانوی بلکہ فلمی سا لگتا ہے ۔حج اور عمرے کے روحانی تجربے کے ساتھ ساتھ استاد گرامی مناسک حج اور ہمارے طرز عمل پر گزارشات بھی نہیں بھولے کہ استاد استاد ہی ہوتا ہے ۔اس کتاب کے تو ایک باب کا عنوان ہی ’’پڑھانے کا نشہ‘‘ ہے ۔زندگی کے علاوہ پاکستان کی اس قدیم عظیم درس گاہ جسے پنجاب یونیورسٹی کہتے ہیں کو جاننے کیلئے اپنی درس گاہوں اور اساتذہ کی کلاس اور کلچر کو سمجھنے کیلئے .....’’سسکتی مسکراتی زندگی ‘‘ سے حقیقی آشنائی کیلئے یہ خودنوشت کسی تحفہ سے کم نہیں۔کتاب کے آخری باب نے مجھے رلادیا جس کا عنوان تھا ....’’افتخار فیروز ‘‘ جسے یونیورسٹی کے دنوں میں ’’شورش ثانی‘‘ کہا جاتا اور ڈاکٹر مغیث یقیناً یہ نہ جانتے ہوں گے کہ افتخا ر فیروز گورنمنٹ کالج لائل پور سے ہی حفیظ خان اور میرا دوست تھا جو کچھ عرصہ پہلے ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ہم سے بچھڑ گیا کہ ہماری زندگیوں میں پت جھڑ کا موسم شروع ہو چکا۔

25نومبر بروز ہفتہ 2017مجھے سرجری کیلئے ایک پرائیویٹ اسپتال میں گلبرگ پہنچنا تھا۔ٹی وی وغیرہ بند، خاموشی سے خود کو یکسو کرتے ہوئے تیار ہوا ۔ہمدم دیرینہ امیر افضل کے پہنچتے ہی اہلخانہ کو خدا حافظ کہہ کے روانہ ہوا تو وہم وگمان میں بھی نہ تھا کہ باہر کیا ہو رہا ہے ۔
ٹھوکر نیاز بیگ والا راستہ بند، بپھرا ہجوم، بمشکل ڈاکٹرز ہسپتال والی سڑک لی وہ بھی بند، سائیڈ لین سے ’’اللہ ھو‘‘ چوک کی طرف نکلے رستہ مسدود، عزیزی ڈاکٹر کامران کو صورتحال سے آگاہ کیا کہ آگے مطلع کر دے کہ اسپتال پہنچنا ممکن نہیں اسی دوران برادرم جواد نظیر، رانا جاوید عمر کے فون آئے تو علم ہوا ملک بھر میں یہی صورتحال ہے اور حالات کشیدہ ۔اپنا درد بھول کر میں نے امیر افضل سے کہا ’’ن لیگی قیادت آخر چاہتی کیا ہے ۔ملکی اخلاقیات تباہ کرنے، اقتصادیات کو’’تختہ ڈار‘‘ کی طرف ہانکنے کے بعد یہ روحانی اقدار کے بھی درپے ہیں‘‘لم ڈھینگ نے ڈینگ ماری تھی کہ وہ فیض آباد نہیں پورے ملک کا وزیر داخلہ ہے لیکن تین گھنٹے میں فیض آباد خالی کرانے کے دعویدار نے پورا ملک فیض آباد میں تبدیل کر دیا۔معمول سے 4گنا زیادہ وقت غارت کرکے بمشکل گھر پہنچے ٹی وی اون کیا تو پتا چلا کہ چشم بددورجی ٹی روڈ بندموٹر وے بندنیوز چینلز بندسوشل میڈیا بندفیس بک بندیو ٹیوب بندٹوئیٹر بند، فون بندصرف حکومت کھلی پھر رہی ہے جیسے ہجوم میں کوئی پاگل پھرےبھلا ہو ’’ڈش‘‘ کا ورنہ ہمیں بھی ان افواہوں پر توجہ دینی پڑتی جولینڈ لائن کے ذریعہ پہنچ رہی تھیں۔مواصلاتی بھگدڑ مچی ہوئی تھی۔
چودھری نثار کے گھر حملہ، ن لیگی ایم این اے زخمی، ن لیگیوں کو گھروں پر سیکورٹی فراہم اور عوامی مقامات پر جانے سے روک دیا گیا،تف ایسی عوامی نمائندگی پر کہ عوام کے درمیان نہ جا سکے۔کچھ عاشقان رسول بااصول لوگوں کے مستعفی ہونے کی خبریں، گھیرائو جلائو توڑ پھوڑ، جگہ جگہ جھڑپیں، گاڑیاں پٹرول پمپس وغیرہ نذرآتش، سینکڑوں زخمی، 7جاں بحق ،پتھرائو، شیلنک،سمجھ نہیں آتی ان لوگوں نے کیا سوچ کر یہ مکروہ حرکت کی، پھر جھوٹ پر جھوٹ، بہانے ،بہتان اور جو طوفان ایک استعفیٰ پر ٹل سکتا تھا اس پر بدترین تکبر اور ہٹ دھرمی اور اب ’’چھٹکی ‘‘ کہتی ہے عدلیہ کے احکامات پر عملدرآمد کیا تو کوئی پوچھے عدلیہ کے نااہلی والے احکامات کو تو تم لوگ روز اول سے پروٹوکول کے نیچے روندنے کی کوشش کر رہے ہو اور اب بات ایک استعفیٰ سے کئی ہاتھ آگے نکل کر آئندہ الیکشن تک پہنچ چکی تو تاویلیں،اقتدار کے ہینگ اوور میں مبتلا نام نہاد مقبولیت کے نشے میں دھت ن لیگی لیڈر نہیں جانتے کہ بدمستیوں میں کیا کیا کچھ کر بیٹھے ہیں۔پہلے صرف بدیسی تجوریاں کھلی تھیں اب بھرم بھی کھل گیا کہ یہ اقتدار کے قیام و استحکام کیلئے کسی حد تک بھی جا سکتے ہیں۔
نواز اور بندہ نواز !’’سو جوتے سو پیاز‘‘ والا محاورہ بھی بہت پیچھے رہ گیا ۔شہباز نے سرعام کہاتھا ’’جناب قائد ! اس گھنائونی حرکت کے ذمہ داران سے جان چھڑالیں‘‘ لیکن قائد سچ مچ قائد ہوتا تو قاعدے کی کوئی حرکت کرتا لیکن یہ تو ’’یہ منہ اور مسور کی دال‘‘ اور ’’مجھے کیوں نکالا ؟‘‘ والا مائنڈ سیٹ ہے جسے صرف اپنے منطقی انجام کی منزل پر پہنچ کر ہی قرار نصیب ہونا تھااور منطقی انجام کا یہ آخری باب کوئی اور نہیں عوام کی عدالت لکھ رہی ہے ۔خبر ہے کہ دھرنے کا معاملہ خراب کرنے پر نواز شریف احسن اقبال پر شدید برہم ہیں ’’سب کچھ لٹا کے ہوش میں آئے تو کیا کیا‘‘لیکن یہ تو سب کچھ لٹنے پر بھی ہوش میں نہیں آ رہے ورنہ احسن اقبال یہ عجیب وغریب مضحکہ خیز حرکت کیوں کرتا کہ ایک طرف دھرنے والوں کو پھر مذاکرات کی پیشکش بھی کر رہا ہے اور اسی سانس میں دھرنے والوں پر بھارت سے رابطوں کا الزام بھی لگا رہا ہے ۔کچھ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ کچھ مشیروں اور سول خفیہ اداروں کی غلط رپورٹس نے حکومت کو مروایا ۔سچ یہ ہے کہ حکومت تو پہلے ہی مری مرائی تھی اور کسی نے نہیں ماری بلکہ خودکشی کی مرتکب ہوئی۔
مشیروں وغیرہ نے تو زیادہ سے زیادہ کفن دفن میں حصہ لیا ورنہ اسلامی جمہوریہ پاکستان میں کون ایسی ترمیم کی بدتمیزی کا تصور بھی کر سکتا ہے لیکن انہوں نے کیا ہی نہیں، اس پر پورا پورا پہرہ بھی دیا کیونکہ یہ خود کو لوہے کے چنے سمجھنے کے خبط میں مبتلا تھے…’’لوہے کے چنے‘‘ جو دراصل سیکنڈ ہینڈ مٹی کے ڈھیلے بھی نہ تھے ۔ کہاں گیا وہ نونہال جو زمین تنگ کرنے کی دھمکیاں دیتا رہا اور خیبر تا کراچی زمین ان پر تنگ ہو گئی۔بار بار تکرار کہ آپ قانون نہیں قانون قدرت کی زد میں ہو اور یہ وقت تصادم اور ٹکرائو کا نہیں، توبہ اور معافی کا ہے لیکن یہ تو عدلیہ کے بعد عوام کی عدالت سے بھی متصادم ہوتے وقت بھول گئے کہ عوام اپنی محرومیوں نامرادیوں پر تو سمجھوتہ کر لیں گے لیکن ایک نام، ایک ہستی ایسی بھی ہے جس پر آنچ آنے سے پہلے گنہگار سے گنہگار مسلمان کیلئے بھی زندگی ،موت اور جینا مرنا ایک سا ہو جاتا ہے ۔رخ مصطفی ہے وہ آئینہ کہ اب ایسا دوسرا آئینہ نہ نگاہ آئینہ ساز میں نہ دکان آئینہ ساز میں اسی لئے تو خاتم النبین قرار پائےآخر پر اپنی نعت کے چند شعرتیرے ہوتے جنم لیا ہوتاکوئی مجھ سا نہ دوسرا ہوتامیں بھی ہوتا ترا غلام کوئیلاکھ کہتا نہ میں رہا ہوتاکاش احد میں شریک ہو سکتااور باقی نہ پھر بچا ہوتاکسی غزوہ میں زخمی ہو کر میںتیرے قدموں میں جاگرا ہوتامیں کوئی جنگجو عرب ہوتاجو ترے سامنے جھکا ہوتامجھ کو خالق بناتا غار حسن اور مرا نام بھی حرا ہوتا۔

MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget