مئی 2019

, Javed Chaudhry Columns 14 May 2019, Javed Chaudhry Columns Today, Javed Chaudhry Column.


”ہماری معیشت اب ہمارے ہاتھ میں نہیں رہی‘ یہ آئی ایم ایف کے پاس چلی گئی ہے‘ یہ اگر چاہیں گے تو ہم سانس لیں گے‘ یہ نہیں چاہیں گے تو ہم پھڑک کر مر جائیں گے“ سگار کی بو میری سانس کی نالی میں اٹک رہی تھی‘ میرا دم گھٹ رہا تھا لیکن صاحب کی بات سننا بھی ضروری تھا چنانچہ میرے پاس تمباکو برداشت کرنے کے علاوہ کوئی آپشن نہیں تھا‘ میں سانس روک کر بیٹھ گیا‘ وہ لمبے لمبے کش لے رہے تھے اور ان کے نتھنوں اور بانچھوں سے تمباکو کی لکیریں نکل رہی تھیں۔

وہ بولے ”آپ کے سابق گورنر سٹیٹ بینک طارق باجوہ کے دو جرم تھے‘ وہ ڈالر کو بھی کنٹرول رکھنا چاہتے تھے اور وہ شرح سود بھی اوپر

نہیں جانے دے رہے تھے‘ ان کا خیال تھا ڈالر کی ویلیو میں اگر مزید اضافہ ہو گیا‘ یہ 160 روپے تک پہنچ گیا تو ہماری معیشت دم توڑ جائے گی‘ ملک بے روزگاری‘ کساد بازاری اور مہنگائی کا شکار ہو جائے گا چنانچہ یہ چاہتے تھے وزیراعظم دو بلین ڈالر کا فنڈ دے دیں اور سٹیٹ بینک ان دو ارب ڈالرز کے ذریعے ڈالر کنٹرول رکھے تاکہ مارکیٹ میں استحکام پیدا ہو جائے‘ وزیراعظم اس آئیڈیا کے خلاف نہیں تھے لیکن یہ فارمولا آئی ایم ایف اور وزیراعظم کے چند ساتھیوں کو پسند نہیں تھا‘ یہ لوگ ڈالر کو 160 روپے پر دیکھنا چاہتے تھے چنانچہ گورنر سٹیٹ بینک حکومتی عتاب کا نشانہ بن گئے‘ رضا باقر نے اب ان کی جگہ سٹیٹ بینک کا چارج سنبھال لیا ہے‘ یہ بہت اچھے معیشت دان ہیں‘ یہ ورلڈ بینک‘ ایم آئی ٹی یونیورسٹی اور یونین بینک آف سوئٹزرلینڈ میں بھی کام کر چکے ہیں اوریہ یوکرائن‘ تھائی لینڈ‘ پرتگال‘ جمیکا‘ یونان‘ گھانا اور قبرص میں بھی آئی ایم ایف کے نمائندے رہ چکے ہیں‘ یہ آخر میں تین سال مصر میں رہے‘ مصر 2016ءمیں اس جگہ پر پہنچ گیا تھا جہاں آج پاکستان ہے‘ مصر کے زرمبادلہ کے ذخائر 36 ارب ڈالر سے 16 ارب ڈالر پر آ گئے تھے‘ مصری حکومت پاکستان کی طرح آئی ایم ایف کے دروازے پر دستک دینے پر مجبور ہوگئی‘ آئی ایم ایف نے دباﺅ ڈالا اور مصر نے اپنی کرنسی کی ویلیو کم کر دی۔


آئی ایم ایف پیکج سے قبل ایک ڈالر میں 7 مصری پاﺅنڈ آتے تھے‘ پیکج آیا تو ڈالر 17مصری پاﺅنڈ کا ہو گیا‘ افراط زر بڑھنا شروع ہوئی اور یہ 21 فیصد ہو گئی‘ اس کے نتیجے میں 28 فیصد عوام خط غربت سے نیچے آ گئے‘ آئی ایم ایف نے رضا باقر کو مصری معیشت پر نظر رکھنے کی ذمہ داری سونپ دی‘ یہ مصر میں رہے‘ اس دوران بجلی اور گیس کی قیمتوں میں 130فیصد اضافہ ہوا‘ ویلیو ایڈڈ ٹیکس 14 فیصد بڑھ گیا اور بے روزگاری 10 فیصد۔

رضا باقر کے دور میں مصر کا قرضہ جی ڈی پی کا 103 فیصد ہو گیا ‘ حکومتی اخراجات 82 ارب ڈالر ہو گئے جبکہ آمدنی صرف 58 ارب ڈالر رہ گئی گویا 24 ارب ڈالر کا شارٹ فال ہو گیا یوں مصری معیشت کا جنازہ نکل گیا‘ مصر کے وزیر خزانہ ڈاکٹر محمد مائط نے پاکستان کے سابق وزیر خزانہ اسد عمر کو مشورہ دیا آپ لوگ کسی قیمت پر اپنی کرنسی کی ویلیو کم نہ کریں کیونکہ ہم نے ایکسپورٹس بڑھانے کےلئے یہ غلطی کی تھی لیکن ہماری برآمدات بڑھنے کی بجائے مزید کم ہو گئیں‘ ہمارے قرضوں اور مہنگائی میں بھی اضافہ ہوگیا۔

, Javed Chaudhry Columns 14 May 2019, Javed Chaudhry Columns Today, Javed Chaudhry Column.



ڈاکٹر محمدمائط نے اسد عمر کو یہ مشورہ بھی دیا تھا تم کوشش کرو تم آئی ایم ایف سے جتنا بچ سکتے ہو تم بچ جاﺅ‘یہ مشورہ اسد عمرکے دل کو لگا چنانچہ یہ بھی طارق باجوہ کی طرح پاکستانی روپے کی مزید ویلیو کم کرنے پر تیار ہوئے اور نہ آئی ایم ایف کے دباﺅ میں آئے لیکن پھر نتیجہ کیا نکلا‘ طارق باجوہ بھی گئے اور اسد عمر بھی اور ان کی جگہ آئی ایم ایف کے آفیسر باقر رضا وائسرائے بن کرپاکستان آ گئے اور عالمی اداروں کے دوست حفیظ شیخ مشیر خزانہ بن گئے یوں گیم آئی ایم ایف کے ہاتھ میں چلی گئی“۔

۔وہ خاموش ہوگئے‘ سگار کا دھواں تیز ہو گیا‘ صاحب افطاری کے بعد سگار پینا شروع کرتے ہیں اور سحری تک دھواں اڑاتے رہتے ہیں اور میں افطاری کے وقت ان کے قابو آ گیا تھا اور دھواں دھواں ہو کر رہ گیاتھا۔میں نے ان سے پوچھا ”سر اب کیا ہو گا“ وہ ہنس کر بولے ”ڈالر حکومت کے کنٹرول سے نکل کر آئی ایم ایف کے پاس چلا گیا ہے‘ یہ اب 160 روپے میں ملے گا یا پھر 200 روپے میں یہ فیصلہ حکومت پاکستان نہیں کرے گی یہ آئی ایم ایف کرے گا۔

آئی ایم ایف ہمیں چھ ارب ڈالر کا پیکج دے رہا ہے‘ ہمیں اس کے جواب میں ایران پاکستان گیس پائپ لائین کا منصوبہ مکمل طور پر بند کرنا ہوگا‘ سی پیک اور چین کی سرمایہ کاری کا والیم ڈاﺅن کرنا ہوگا‘ ہمیں پی آئی اے‘ سٹیل مل اور ریلوے کو فروخت کرنا ہوگا‘ ہمیں بجلی‘ گیس اور پٹرول کے نرخ کو اوپن کرنا ہوگا‘ عوام ان کی کاسٹ سے 20 فیصد زیادہ ادا کریں گے‘ یہ بیس فیصد ٹیکس ہو گا اور یہ ٹیکس آئی ایم ایف کے قرضوں کی ادائیگی میں استعمال ہو گا‘ حکومت تمام سبسڈی بھی ختم کر دے گی۔

کسانوں کو بھی بجلی‘ گیس اور پٹرول مہنگا ملے گا‘ کھاد کی سبسڈی بھی ختم ہو جائے گی‘ حکومت ادویات اور پولٹری کی سبسڈی بھی واپس لے لے گی اور غریبوں کی مراعات بھی تھوڑی تھوڑی کر کے ختم کر دی جائیں گی اور یوں مہنگائی‘ بے روزگاری اور افراتفری میں اضافہ ہو جائے گا“۔ وہ خاموش ہو گئے‘ میں نے عرض کیا ”لیکن سر نئے چیئرمین ایف بی آر شبرزیدی اچھے انسان ہیں‘ یہ ایماندار اور سمجھ دار بھی ہیں‘ یہ ملک کے ٹیکس سسٹم کو بھی اچھی طرح سمجھتے ہیں اور ان کا پہلا فیصلہ بھی چھکا تھا۔

, Javed Chaudhry Columns 14 May 2019, Javed Chaudhry Columns Today, Javed Chaudhry Column.



شبرزیدی نے آرڈر جاری کر دیا ایف بی آر کسی ٹیکس پیئر کو نوٹس دیئے بغیر اس کے اکاﺅنٹس سے پیسے نہیں نکال سکے گا‘ لوگ اس آرڈر پر بہت خوش ہیں‘ ایف بی آر ٹیکس پیئرز اور کمپنیوں کو بتائے بغیر ان کے اکاﺅنٹس سے رقم نکال لیتا تھا جس کی وجہ سے لوگوں نے اپنے اکاﺅنٹس خالی کر دیئے تھے اور بینکوں میں کیش کم پڑ گئی تھی“ صاحب نے قہقہہ لگایا‘ سگار کا ایک اور لمبا کش لیا اور بولے ”لیکن شبر زیدی زیادہ دنوں تک ٹک نہیں سکیں گے‘ یہ بھی جلد جہانزیب خان کی طرح ہٹا دیئے جائیں گے“۔

وہ خاموش ہو گئے‘ یہ میرے لئے خبر تھی چنانچہ میں ہمہ تن گوش ہو گیا‘ وہ بولے”شبرزیدی کے خلاف سازشیں شروع ہو چکی ہیں‘ حفیظ شیخ ایف بی آر میں اپنی مرضی کا افسر لانا چاہتے تھے لیکن عین وقت پر ان کا تجویز کردہ شخص کرپٹ نکل آیا‘ وزیراعظم نے تعیناتی سے انکار کر دیا‘ شبر زیدی کا نام وزیر قانون فروغ نسیم نے پیش کیا‘ وزیراعظم ان پر اعتماد کرتے ہیں چنانچہ یہ تقرری کر دی گئی‘ پاکستان پیپلز پارٹی کے دور میں حکیم علی ارشد چیئرمین بنائے گئے تھے۔

ان کی تقرری اسلام آباد ہائی کورٹ  میں چیلنج ہو گئی تھی جس کے بعد اسلام آباد ہائی کورٹ نے جون 2013ءمیںحکم جاری کر دیا تھا حکومت اگر پرائیویٹ سیکٹر سے کسی سرکاری محکمے کا سربراہ تعینات کرنا چاہے گی تو یہ پہلے یہ پوزیشن مشتہر کرے گی‘ انٹرویوز ہوں گے‘ تین لوگوں کے نام شارٹ لسٹ ہوں گے اور حکومت ان میں سے کسی ایک کو مقرر کرے گی‘ شبر زیدی اس کرائی ٹیریا پر پورے نہیں اترتے تھے‘ یہ ایشو کابینہ میں زیر بحث آیاتو وزیر قانون نے وزیراعظم کو مشورہ دے دیا آپ شبر زیدی کو اعزازی چیئرمین بنا دیں‘ وزیراعظم کو آئیڈیا اچھا لگا۔

انہوں نے وزارت قانون سے تحریری مشورہ مانگ لیا ‘ فروغ نسیم نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کو لکھ کر بھجوا دیا وزیراعظم شبرزیدی کو اعزازی چیئرمین تعینات کر سکتے ہیں یوں یہ ایشو حل ہو گیا لیکن مخالفین یہ فیصلہ قبول کرنے کےلئے تیار نہیں ہیں‘ یہ اب کابینہ کے مختلف وزراءاوروزیراعظم کے ساتھیوں کو ٹیکس کے 20 بڑے کیسز کی فائلیں بھجوا رہے ہیں‘ یہ اربوں روپے کے بیس بڑے کیس ہیں اور ان تمام کیسز میں بیرسٹر فروغ نسیم کمپنیوں کے وکیل ہیں اور شبرزیدی چارٹرڈ اکاﺅنٹنٹ۔

یہ لوگ وزیراعظم کو یہ سمجھانے کی کوشش کر رہے ہیں شبر زیدی اور فروغ نسیم دونوں پارٹنر ہیں‘ فروغ نسیم وزیر قانون بھی ہیں اور یہ ریاست کے خلاف مقدموں میں پرائیویٹ کمپنیوں اورلوگوں کے وکیل بھی ہیں‘ یہ سو سے دو سو ارب روپے کے مقدمے ہیں اور یہ دونوں اب بڑی آسانی سے اپنے موکلوں کو فائدہ پہنچا سکتے ہیں‘ یہ لوگ شبر زیدی کے پہلے فیصلے کو بھی غلط رنگ دینے کی کوشش کر رہے ہیں لہٰذا شبرزیدی نے جس دن ایمنسٹی سکیم اور کلیمز کے فیصلے کرنا شروع کر دیئے‘ یہ جس دن مارکیٹ کو استحکام دینے کےلئے بڑے مقدمات پر کارروائی رکوادیں گے اس دن سازشیوں کی سازشیں کامیاب ہو جائیں گی‘ یہ بھی اس دن فارغ کر دیئے جائیں گے“ وہ خاموش ہوگئے۔

میں نے ان سے پوچھا ”کیا شبرزیدی غلط چوائس ہیں“ وہ ہنس کر بولے ”یہ بہت اچھی چوائس ہیں‘ ایف بی آر کو اکانومسٹ نہیں چارٹرڈ اکاﺅنٹنٹ ہی چلا سکتے ہیں‘ اسحاق ڈار بھی چارٹرڈ اکاﺅنٹنٹ تھے‘ یہ وزیر خزانہ تھے لیکن یہ ایف بی آر بھی چلاتے رہے‘ ان کے دور میں ٹیکس کولیکشن بھی ڈبل ہو گئی‘ ڈالر بھی 103 پر ٹکا رہا‘ گروتھ ریٹ میں بھی اضافہ ہوا‘ مہنگائی بھی کم ہوئی‘ زرمبادلہ کے ذخائر بھی بڑھ گئے اورجنوری 2017ءمیں تاریخ میں پہلی مرتبہ سٹاک ایکس چینج کا 100 انڈیکس 50 ہزار پوائنٹس کی حد سے بھی تجاوز کر گیا۔

شبر زیدی بھی چارٹرڈ اکاﺅنٹنٹ ہیں‘ یہ بڑی آسانی سے معیشت کو سنبھال سکتے ہیں‘ یہ ٹیکس کولیکشن بھی بڑھا دیں گے اور مارکیٹ کو بھی مستحکم کر دیں گے لیکن یہ بات منظوری دینے والوں کو منظور نہیں‘ یہ پاکستان کی معیشت کو مستحکم نہیں دیکھنا چاہتے چنانچہ شبرزیدی بھی بہت جلد سازش کا شکار ہو جائیں گے‘ یہ بھی آپ کو جہانزیب خان اور اسد عمر کی طرح سائیڈ پر بیٹھے نظر آئیں گے “ میں نے حیرت سے پوچھا ”لیکن کیوں؟“ صاحب ہنس کر بولے ”وزیراعظم نیک نیت ہیں بس ان میں دو خامیاں ہیں‘ یہ بے شمار لوگوں سے مشورے کرتے ہیں اور ہر مشورے کو صحیح سمجھ لیتے ہیں اور دوسرا‘ یہ دیوار کے پیچھے نہیں جھانک پاتے‘ یہ لوگوں کو ان کی فیس ویلیو پر پرکھتے ہیں‘ یہ ان کے عزائم نہیں دیکھتے اور یہ خامیاں پورے ملک کو لے کر بیٹھ گئی ہیں‘پورا ملک ہار رہا ہے لیکن جمہوریت کا انتقام جیت رہا ہے“۔

, Javed Chaudhry Columns 14 May 2019, Javed Chaudhry Columns Today, Javed Chaudhry Column.


Javed Chaudhry Columns 12 May 2019, Javed Chaudhry Columns Today, Javed Chaudhry Column, Javed Chaudhry Columns Express.

آپ ادب کو کسی بھی زاویے‘ کسی بھی سائیڈ سے دیکھ لیجئے ‘ آپ کو فیودوردوستوفسکی  ادب کے عین درمیان کھڑا ملے گا‘دی ایڈیٹ ہو‘ برادرز کراموزوف ہو‘ کرائم اینڈ پنشمنٹ ‘دی گیمبلر‘ڈیمنز‘ دی ڈبل اوردی ایٹرنل ہس بینڈ ہو‘ یہ ناول صرف ناول نہیں ہیں‘ یہ تخلیق کی انتہا ہیں‘یہ انسان‘ نفسیات اور معاشرے کی زمین سے افق تک پھیلی وسیع پینٹنگز ہیں‘ وہ لکھتا نہیں تھا وہ لفظوں سے پینٹ کرتا تھا اور پینٹ بھی ایسا کہ ہر کردار کتاب سے نکل کر قاری کے سامنے کھڑا ہو جاتا تھا اور پڑھنے والے اسے اپنے اردگرد چلتا پھرتا محسوس کرتے تھے۔

لوگ کرداروں کی خوشبو تک سونگھتے تھے‘ میں نے اپنا پورا لڑکپن دوستوفسکی کے کرداروں کے ساتھ گزارہ ‘دی ایڈیٹ طویل ناول ہے‘ پرنس

مشکن ناول کا مرکزی کردار ہے‘ آپ دوستوفسکی کی کردار نگاری اور تفصیل نویسی کی انتہا ملاحظہ کیجئے‘ پرنس مشکن ریلوے سٹیشن پر اترتا ہے اور وہ سٹیشن سے گھر پہنچتا ہے‘ دوستوفسکی نے یہ تھوڑا سا سفر 168 صفحات میں بیان کیا‘ یہ تفصیل نویسی دوستوفسکی کے علاوہ کسی دوسرے لکھاری کے بس کی بات نہیں۔
اس کے فقرے بھی انسان کو اندر سے کاٹ کر رکھ دیتے تھے‘ مثلاً اس نے کسی جگہ لکھا‘ تم اتنے بوڑھے ہو کہ تم اپنے بھی باپ دکھائی دیتے ہو‘ مثلاً بچوں کو بچہ سمجھنے والے لوگ یہ بھول جاتے ہیں وہ بھی کبھی بچے تھے اور انہیں اس عمر میں وہ سب کچھ معلوم تھا جس کے بارے میں ان کا خیال ہے ان کے بچے نہیں جانتے‘ مثلاً یہ کیسے ممکن ہے تم زندہ بھی ہو اور تمہارے پاس سنانے کےلئے کوئی کہانی بھی نہیں‘ مثلاً وہ اگر انسان ہے تو وہ یاوہ گوئی ضرور کرے گا۔

مثلاً اپنی مرضی سے غلط راستے پر چلنا اس صحیح راستے سے ہزارگنا بہتر ہے جس پر آپ دوسروں کے حکم سے چلنے پر مجبور ہوں ‘مثلاً رات جتنی گہری ہو گی ستارے اتنے ہی چمک دار ہوںگے اور مثلاً غم کی انتہا انسان کو خدا کے قریب لے جاتی ہے وغیرہ وغیرہ۔ وہ کمال حقیقت نگار بھی تھا‘ دوستو فسکی کی بارش محض لفظی بارش نہیں ہوتی تھی‘ وہ قاری کو گیلا بھی کرتی تھی‘ اس کی برف باری قاری کو گرمیوں میں کمبل اوڑھنے اور اس کی کھانسی قاری کو کھانسنے پر مجبور کر دیتی تھی۔

روس کی سردی‘ شام کی اداسی‘ سوکھی لکڑیوں کی کمی اور گرم کھانے کی اشتہا آپ اگر ایک بار دوستوفسکی کی منظر نگاری کا نشانہ بن گئے تو پھر آپ قبر تک یہ ذائقے بھول نہیں سکیں گے‘ وہ ایک بیمار اور ناآسودہ روح تھا‘ مرگی کا مریض تھا اور مرگی کے دوروں کے دوران اسے الہام ہوتا تھا‘ یہ الہام اس کے ناولوں کی کھیتی ثابت ہوتے تھے‘ وہ اپنے کرداروں کے منہ سے مستقبل کا نقشہ کھینچ دیتا تھا اور بعد ازاں وہ واقعات من وعن ظہور پذیر ہو جاتے تھے۔

 وہ پھیپھڑوں کے سرطان کا مریض بھی تھا‘ کھانسنا‘ خون تھوکنا اور خون تھوکتے تھوکتے لکھتے رہنا اس کا معمول تھا‘ اپنے بچوں سے بہت محبت کرتا تھا‘ شام کی چائے بچوں کے ساتھ پیتا تھا اور ان سے ان کی تعلیم کے بارے میں ضرور پوچھتا تھا‘ سگریٹ بے تحاشا پیتا تھا‘ وہ سگریٹ کے بغیر لکھ نہیں سکتا تھا‘ ساری رات سگریٹ پیتا تھا اور لکھتا تھا اور پھر تھک ہار کر سوجاتا تھا‘ علاج کیلئے جرمنی گیا لیکن علاج کامیاب نہ ہو سکا اور یوں دنیا کا عظیم لکھاری 60سال کی عمر میں9فروری 1881ءکو فوت ہو گیا۔

Javed Chaudhry Columns 12 May 2019, Javed Chaudhry Columns Today, Javed Chaudhry Column, Javed Chaudhry Columns Express.

دوستو فسکی کا جنازہ سینٹ پیٹرز برگ کی تاریخ کا سب سے بڑا جنازہ تھا‘شاہی خاندان سے لے کر روس کے غلام تک ہر طبقے کے لوگ جنازے میں شریک ہوئے‘ دوستوفسکی کی زندگی مسائل میں گزری تھی‘ ملٹری انجینئرنگ سکول میں ابتدائی تعلیم حاصل کی‘ فوج میں بھرتی ہوا‘ لکھنے پڑھنے کا کام شروع کیا‘ گرفتار ہوا اور پانچ سال سائبیریا میں لوہا کوٹنے پر لگا دیا گیا‘ حکومت نے اس دوران اس کے لکھنے پر بھی پابندی لگا دی ‘وہ قید کاٹ کر واپس آیا اور قلم سے دوبارہ رشتہ استوار کر لیا۔

دوشادیاں کیں‘ چاربچے ہوئے‘ آخری شادی اپنی سیکرٹری ایناگریگوریونا سے کی‘ وہ بیس سال کی تھی اور یہ 46سال کا بیمار شخص لیکن اس کے باوجود شادی زبردست رہی‘ وہ اپنی بیٹیوں کو خط بھی لکھتا تھا اور ان کےلئے نوٹس لکھ کر کھانے کی میز پر بھی رکھ دیتا تھا‘ یہ نوٹس اور یہ خط بھی اب تاریخ کا حصہ ہیں اور میں پانچ مئی 2019ءکی شام ادب کی یہ تاریخ دیکھنے کےلئے دوستوفسکی کے گھر پہنچ گیا۔دوستوفسکی کا گھر سنٹر سے ذرا سا ہٹ کر اپارٹمنٹس کی بلڈنگ میں تھا۔

دوستوفسکی ماسکومیں پیدا ہوا مگر زندگی کا زیادہ تر حصہ سینٹ پیٹرز برگ میں گزارہ‘ وہ ہمیشہ کرائے کے گھروں میں رہالیکن زندگی کا آخری حصہ سینٹ پیٹرزبرگ کی اس عمارت میں گزارہ‘ عمارت کا مرکزی دروازہ گلی میں ذرا سا نیچے تھا‘ میں آٹھ سیڑھیاں اتر کر عمارت کے اندر داخل ہوا‘ سامنے ٹکٹ گھر اور استقبالیہ تھا‘ دوستوفسکی تیسری منزل کے بائیں فلیٹ میں رہتا تھا‘ سیڑھیاں قدیم اور اکھڑی ہوئی تھیں‘ وہ اپنے ہر ناول اور ہر کہانی میں اپارٹمنٹس‘ سیڑھیوں اور مرکزی دروازوں کا ذکر ضرور کرتا تھا۔

مجھے اوپر چڑھتے ہوئے وہ سارے کردار‘ ان کی سیڑھیاں اور ان کے اپارٹمنٹس یاد آ گئے‘ دوستوفسکی نے یقینا وہ تمام کردار انہی سیڑھیوں سے اترتے چڑھتے ہوئے تخلیق کئے تھے اور یہ بھی عین ممکن تھادوستوفسکی کے تمام کردار اسی عمارت کے مختلف فلیٹس میں رہتے ہوں اور اس نے وہ دیکھ کر ان کے گرد کہانیوں کا تانا بانا بنا ہو‘ میں اوپر چڑھتا چلا گیا یہاں تک کہ اس کا فلیٹ آ گیا‘ فلیٹ کے دروازے پر پیتل کی نیم پلیٹ لگی تھی‘ مرکزی دروازے کے اندر کوریڈور تھا۔

کوریڈور کی ایک سائیڈ بیڈروم میں کھلتی تھی اور دوسری سِٹنگ روم کی طرف بڑھ جاتی تھی‘ بیڈروم میں بچوں کے کھلونے پڑے تھے‘ یہ اس کے بچوں اور بیوی کا کمرہ تھا‘ کمرہ چھوٹا تھا‘ بچے یقینا مشکل سے ایڈجسٹ ہوتے ہوں گے‘ بیڈروم کا دوسرا دروازہ ڈائننگ ہال میں کھلتا تھا‘ ڈائننگ ہال میں چھوٹی سی ٹیبل اور چار کرسیاں تھیں‘ الماریوں میں برتن تھے اور دیواروں پر فیملی کی تصویریں لگی تھیں‘ میز پر دوستوفسکی کے ہاتھ کے نوٹس اور سکرپٹ بھی پڑے تھے۔

Javed Chaudhry Columns 12 May 2019, Javed Chaudhry Columns Today, Javed Chaudhry Column, Javed Chaudhry Columns Express.

وہ دن میں ایک بار اس میز پر اپنے بچوں کے ساتھ ضرور بیٹھتا تھا‘ اس دوران بچوں سے ان کی پڑھائی کے بارے میں پوچھتا تھا‘ بیٹی کے نام اس کے نوٹس بھی میز پر پڑے تھے‘ دوستوفسکی کی لکھائی بہت اچھی تھی‘ وہ باریک پین کے ساتھ لکھتا تھا اور کاغذ کا کوئی حصہ ضائع نہیں کرتا تھا‘ اس کے نوٹس اس کی کفایت شعاری کا ثبوت تھے‘ ڈائننگ روم کے باہر لابی تھی‘ یہ لابی سِٹنگ روم کے طور پر استعمال ہوتی تھی‘ وہاں صوفہ بھی پڑا تھا اور چھوٹی سی میز بھی‘ میز پر اس کے سگریٹ رکھے تھے۔

اس زمانے میں کاغذ کے خالی خول میں تمباکو بھر کر پیا جاتا تھا‘ تمباکو کی ڈبی اور سگریٹ کے کاغذی خول ساتھ ساتھ دھرے تھے‘ دوستوفسکی کی سٹڈی سِٹنگ روم کے ساتھ تھی‘ یہ نسبتاً بڑا کمرہ تھا‘ سامنے وہ رائیٹنگ ٹیبل تھی جس پر بیٹھ کر اس نے جرم وسزا‘دی ایڈیٹ اور برادرز کراموزوف جیسے شاہکار لکھے تھے‘ میز پر کاغذ‘ دوات اور پین رکھے تھے‘ ساتھ الماری تھی اور الماری میں کتابیں تھیں‘ میز سے پیچھے صوفہ تھا اور صوفے کے ساتھ فلور لیمپ رکھا تھا۔

دیواروں پر کینڈل سٹینڈ لگے تھے‘ میز پر بھی کینڈل سٹینڈ تھا‘ وہ یقینا موم بتیوں کی روشنی میں کام کرتا تھا‘ کونے میں چابی والا کلاک تھا‘ یہ کلاک اس کے بھائی نے گفٹ کیا تھا اور اس کی سوئیاں اس وقت پر آ کر رک گئی تھیں جب اس کی موت واقع ہوئی تھی‘ وہ ساری ساری رات کام کرتا تھا‘ صبح تھک کر صوفے پر سو جاتا تھا‘ فلیٹ کی کھڑکیاں گلی کی طرف کھلتی تھیں‘ شام تک روشنی اندر آتی رہتی تھی‘ پورے فلیٹ میں ایک ہی چیز قیمتی تھی اور وہ چیز لوہے کی انگیٹھی تھی۔

فلیٹ میں چار انگیٹھیاں تھیں‘ یہ انگیٹھیاں ثابت کرتی تھیں سینٹ پیٹرزبرگ میں اس زمانے میں شدید سردی پڑتی تھی اور لوگوں کو گھر گرم رکھنے کےلئے خصوصی اہتمام کرنا پڑتا تھا‘ دوستوفسکی نے بھی یہ بندوبست کر رکھا تھا‘ انگیٹھیاں‘ سوکھی لکڑیاں اور آگ کے شعلے یہ بھی دوستوفسکی کے ہر ناول‘ ہر افسانے میں ضرور ہوتے تھے‘ ڈیڑھ سو سال پرانے روس کی وہ انگیٹھیاں بھی میرے سامنے تھیں‘ وہ کھانا بہت کم کھاتا تھا تاہم چائے پیتا رہتا تھا۔

جرم وسزا کے ایک کردار نے اپنے منہ سے کہا تھا ”دنیا جہنم میں جائے لیکن مجھے چائے کا گرم کپ وقت پر ملنا چاہیے“ یہ شاید دوستوفسکی کے اپنے جذبات تھے‘ اس کی پوری زندگی درد‘ تکلیف اور کسمپرسی میں گزری‘ اس نے خود لکھا ”درد اور تکلیفیں بڑے دماغوں اور گہرے دلوں کےلئے ناگزیر ہوتی ہیں‘ اصلی بڑے لوگ دنیا کے سب سے بڑے اداس لوگ ہوتے ہیں“ وہ کہتا تھا ”دوزخ کیا ہے؟ محبت کرنے کی صلاحیت سے محرومی اور بس“۔

وہ پوری زندگی سچی محبت تلاش کرتا رہا اور اپنی باطنی اداسی سے لڑتا رہا یہاں تک کہ تھوک میں خون اور بلغم میں لوتھڑے آنے لگے‘ وہ آخر میں اپنے بچوں کےلئے زندہ رہنا چاہتا تھا‘ اس نے بے تحاشا کوشش کی لیکن اس کے باوجود ایک دن اس کی زندگی اس کے ادھورے کرداروں کی طرح ختم ہو گئی‘ وہ لکھتا لکھتا دنیا سے رخصت ہو گیامگر جاتے جاتے اپنے فلیٹ میں اپنا ادھورا پن‘ الہام کی روشنی اور روح کی آخری تہہ تک پھیلی اداسی چھوڑ گیا۔میں نے لمبا سانس لیا‘ پھیپھڑوں میں دوستوفسکی کی اداسی بھری اور بھاری قدموں کے ساتھ سیڑھیاں اترنا شروع کر دیں‘ عمارت کی ہر سیڑھی پر اس کے کردار کھڑے تھے۔

پرنس مشکن‘ ایپولیت اور سینٹ پیٹرز برگ کے اعلیٰ طبقے کی خوبصورت عورتیں وہ سب لوگ آج بھی سیڑھیوں پر موجود تھے‘ وہ سب اپنے خالق کے اوپر سے اترنے کا انتظار کر رہے تھے‘ وہ چاہتے تھے وہ اپنا سیاہ لانگ کوٹ‘ اونی ہیٹ اور واکنگ سٹک سنبھالتا ہوا آئے‘ ان کے قریب رکے‘ مسکرائے اور پھر کہے ”تم لوگ ابھی تک یہاں کھڑے ہو“ اور پھر نخوت سے گردن گھما کر نیچے اتر جائے لیکن شاید یہ اب ممکن نہیں تھا‘ دنیا کا بڑے سے بڑا خالق بھی جب اپنے خالق حقیقی سے جا ملتا ہے تو پھر وہ واپس نہیں آ پاتا‘ کردار قیامت تک اس کا انتظار ہی کرتے رہ جاتے ہیں‘ کیوں؟ کیونکہ گئے وقت اور برسی بارشیں کبھی واپس نہیں آتیں‘ زندگی کرسٹل کا مرتبان ہے‘ ٹوٹ جائے تو بس ٹوٹ جاتا ہے دوبارہ نہیں بنتا۔

Javed Chaudhry Columns 12 May 2019, Javed Chaudhry Columns Today, Javed Chaudhry Column, Javed Chaudhry Columns Express.

Javed Chaudhry Columns 10 May 2019, Javed Chaudhry Columns Today, Javed Chaudhry Column, Javed Chaudhry Columns Express.

روس کے دو شہر اہم ہیں‘ ماسکو اور سینٹ پیٹرز برگ‘ میں نے دو دن ماسکو اور دو سینٹ پیٹرز برگ میں گزارے‘ پیٹرز برگ فن لینڈ کے بارڈر پر ہے اور مکمل یورپی شہر ہے‘ یہ ماسکو سے پہلے روس کا دارالحکومت ہوتا تھا‘ زار اس شہر سے پورے روس پر حکومت کرتے تھے‘ دونوں شہروں کے درمیان بلٹ ٹرین چلتی ہے‘ فاصلہ چار گھنٹوں میں طے ہو جاتا ہے‘ میں نے دن ڈیڑھ بجے ٹرین لی اور ساڑھے پانچ بجے سینٹ پیٹرز برگ میں تھا۔

یہ ساحلی شہرہے‘ روس کو” بالٹک سی“ سے جوڑتا ہے‘ فن لینڈ کا دارالحکومت ہیلسنکی ٹرین کے ذریعے صرف ساڑھے تین گھنٹے دور ہے‘ دونوں کے درمیان فیری سروس بھی ہے‘ یورپ کے زیادہ تر سیاح فن لینڈ سے پیٹرز

برگ آتے ہیں‘ یہ علاقہ کبھی سویڈن کی ملکیت تھا لیکن پھر پیٹر دی گریٹ نے یہاں قبضہ کیا اور 1703ءمیں یورپ کا شاندار ترین شہر تعمیر کرنا شروع کر دیا‘ زار نے قانون بنایا پورے ملک سے ہر سال چالیس ہزار غلام یہاں بھجوائے جائیں گے‘ یہ غلام شہر کی تعمیرکرتے تھے۔
یہ سال کے اندر بھوک‘ پیاس اور سردی کی وجہ سے مر جاتے تھے‘ اگلے سال نئے آ جاتے تھے‘ یہ دنیا کا پہلا شہر تھا جو پہلے کاغذ پر بنا‘ بادشاہ نے اس کی ایک ایک گلی‘ کوچے اور عمارت کی منظوری دی اور پھر یہ زمین پر بنایا گیا‘ یہ تین سو سال بعد بھی جوں کا توں ہے‘ اس کی کوئی گلی‘ کوئی عمارت تبدیل نہیں ہوئی‘ عمارت اگر کسی آفت کی وجہ سے زمین بوس ہو گئی تو حکومت نے اس جگہ عین ویسی عمارت دوبارہ کھڑی کی لہٰذا اگر ماضی کا کوئی کردار اپنی قبر سے اٹھ کر سینٹ پیٹرز برگ آ جائے تو وہ آنکھیں بند کر کے ایک مقام سے دوسرے مقام تک پہنچ جائے گا۔

Javed Chaudhry Columns 10 May 2019, Javed Chaudhry Columns Today, Javed Chaudhry Column, Javed Chaudhry Columns Express.



یہ سارا شہر عجائب ہے لیکن زاروں کے دو محلات کمال ہیں‘ پیٹر دی گریٹ نے شہر کے مضافات میں اپنا گرمائی محل بنوایا تھا‘ یہ گارڈن پیلس تھا‘ وسیع باغ میں جھیلوں کے ساتھ چھوٹے چھوٹے محلات‘ حرم‘ کچنز‘ ڈائننگ رومز اور باتھ رومز تھے‘ عمارتیں ایک دوسرے سے الگ تھیں اور شاہی خاندان بگھی پر ایک عمارت سے دوسری تک جاتا تھا تاہم ملکہ کا محل ایک تھا اور کمال تھا‘ بادشاہ نے یہ محل اپنی عزیز ترین ملکہ کیتھرائن کےلئے بنوایا تھا‘ محل کی دیواریں تک سونے سے ڈھکی ہوئی تھیں۔

ملکہ کیتھرائن کی بیٹی کوئین ایلزبتھ نے 1750ءمیں اسے نئے سرے سے بنوایا‘ اٹلی سے معمار لائے گئے اور معماروں نے محل کو آرٹ پیس بنا دیا‘ روس کے عظیم شاعرالیگزینڈر پوشکن کا بچپن اور جوانی اسی محل کی دیواروں کے نیچے گزری تھی‘ پوشکن اسی علاقے کے ایک معزز خاندان سے تعلق رکھتا تھا‘ روس میں روایت تھی خوش حال لوگ دو گھر بناتے تھے‘ یہ گرمیوں میں شہر سے دیہات میں شفٹ ہو جاتے تھے‘ گرمیوں کے گھر ڈاچے کہلاتے تھے۔



ڈاچے فارم ہاﺅسز ہوتے تھے اور یہ لوگ سردیوں میں ڈاچے سے بڑے شہروں میں چلے جاتے تھے‘ پوشکن کا ڈاچا محل کے قریب تھا‘ حکومت نے1837 ءمیں پوشکن کے قتل کے بعد اس علاقے کو پوشکن ٹاﺅن ڈکلیئر کر دیا جبکہ اس کے ڈاچے کو میوزیم بنا دیا‘ میں آخری دن پوشکن ٹاﺅن گیا‘ ملکہ کیتھرائن کا محل بھی دیکھا اور پوشکن کا ڈاچا بھی‘محل دولت کا سفاکانہ قتل تھا جبکہ پوشکن کا گھر مسکین شاعر کا گھر تھا‘ سادہ مگر پروقار۔ زار کا دوسرا محل سینٹ پیٹرز برگ میں تھا۔

یہ ونٹر پیلس کہلاتا ہے اور یہ بھی زمین پر انسانی صناعی کا نقطہ کمال ہے‘ ملکہ ایلزبتھ آرٹ کے خبط میں مبتلا تھی ‘ اس نے اپنے زمانے کے تمام بڑے آرٹس بھی خرید لئے تھے اور قدیم فن پارے بھی‘ آپ کو پیرس کے لوومیوزیم کے بعد دنیا کی سب سے بڑی آرٹ کولیکشن ونٹر پیلس میں ملتی ہے‘ محل میں تین ہزار مجسمے اور پینٹنگز ہیں اور ہر پینٹنگ پانچ پانچ سو ملین ڈالر مالیت کی ہے۔ونٹر پیلس انسانی المیوں کی عبرت گاہ بھی ہے‘ پہلا المیہ ملکہ ایلزبتھ تھی۔

ملکہ نے اربوں روپے خرچ کرکے دنیا کا مہنگا ترین محل بنوایا لیکن وہ محل مکمل ہونے سے پہلے انتقال کر گئی‘ وہ ممتاز محل کی طرح اپنا شاہکار نہ دیکھ سکی۔ دوسرا المیہ الیگزینڈر دوم تھا‘ الیگزینڈر دوم روس کاانقلابی زار تھا‘ اس نے 1861ءمیں روس میں غلامی پر پابندی لگا دی‘ تمام کسانوں‘ ہنر مندوں اور غلاموں کو آزاد کر دیا لیکن یہ آزادی المیہ ثابت ہوئی‘ کسان اور مزدور نسل در نسل غلام چلے آ رہے تھے‘ آزادی کیا ہوتی ہے یہ لوگ سرے سے نہیں جانتے تھے۔.

مالکان نے حکومت کے دباﺅ میں آ کر انہیں نکال دیا‘یہ لوگ پرائیویٹ کام نہیں جانتے تھے‘ غلامی ان کے ڈی این اے کاحصہ بن چکی تھی چنانچہ یہ بھوکے مرنے لگے‘ دوسری طرف لینڈ لارڈز بادشاہ کے خلاف ہو گئے‘ بادشاہ پر سات حملے ہوئے لیکن وہ بچ گیا‘ آخری حملہ نہر کے کنارے ہوا‘ بادشاہ نہر کے کنارے کھڑا تھا‘ کسی نے اس پر بم پھینک دیا‘ بادشاہ کی بگھی تباہ ہو گئی لیکن وہ بچ گیا‘ پولیس نے مجرم کو گرفتار کر لیا‘ بادشاہ نے مجرم سے لائیو تفتیش شروع کر دی۔

Javed Chaudhry Columns 10 May 2019, Javed Chaudhry Columns Today, Javed Chaudhry Column, Javed Chaudhry Columns Express.



اس دوران مجرم کا دوسرا ساتھی بم لے کر آیا اور بادشاہ کے قریب پہنچ کر بم پھاڑ دیا‘ یہ تاریخ کا پہلا خودکش بارودی حملہ تھا‘ حملہ آور مارا گیا لیکن بادشاہ شدید زخمی ہو گیا‘ بادشاہ کے جسم کا آدھا خون بہہ گیا‘ خون پتھروں پر گرا اور جم گیا‘ بادشاہ کے بیٹے اور اگلے بادشاہ الیگزینڈر سوم نے ان پتھروں کے گرد شاندار چرچ تعمیر کرایا‘ یہ واقعہ 1881ءمیں پیش آیا تھا چنانچہ چرچ کی اونچائی 81 میٹر رکھی گئی‘ یہ چرچ آج بھی موجود ہے اور یہ بلڈ کیتھڈرل کہلاتا ہے‘ یہ پیٹرز برگ کی نشانی سمجھا جاتا ہے۔

بادشاہ چھ دن نزع کے عالم میں رہا‘ ڈاکٹر اس کا خون نہ روک سکے اور یوں وہ انتقال کر گیا لیکن اس کے خون کے دھبے آج بھی زمین پر موجود ہیں اور ان دھبوں کے گرد چرچ بھی‘ میں چرچ بھی گیا اور آنجہانی بادشاہ کے خون کے دھبے بھی دیکھے‘ الیگزینڈر دوم ونٹر پیلس میں فوت ہوا تھا‘ محل کی دیوارپر اس کی پینٹنگ موجود ہے اور محل کا آخری المیہ انقلاب روس تھا‘ لینن نے انقلاب کا آغاز سینٹ پیٹرزبرگ سے کیا تھا‘ لینن کی تقریروں نے پورے ملک میں آگ لگا دی۔

عوام نے ونٹر پیلس کا گھیراﺅ کر لیااور15 مارچ 1917ءکو نکولس دوم کا تختہ الٹ دیا‘ روس کے آخری زار نکولس دوم اور ملکہ الیگزینڈرا کو گرفتار کر لیا گیا‘انقلابیوں نے نکولس دوم کو خاندان سمیت قید میں ڈال دیا‘16 اور 17جولائی 1918ءکی درمیانی شب انقلابیوں نے شاہی خاندان کے تمام افراد قتل کر دیئے ‘ کوئی بچہ اورکوئی بچی تک نہ بچی تاکہ بانس تک محفوظ نہ رہے‘ میں ونٹر پیلس کا وہ ڈائننگ ہال دیکھنے کےلئے خصوصی طور پر ونٹر پیلس گیا جہاں شاہی خاندان نے پناہ لی تھی۔

میز پر کراکری رکھی تھی اور کرسیوں کے زاویے تک انقلاب کی اس خونی شام جیسے تھے‘ روس کے آخری بادشاہ نے خاندان کے ساتھ اس ہال میں اپنا آخری شاہی کھانا کھایا تھا‘ دربار ہال کے دروازے اور کھڑکیاں کھلی تھیں‘ کھڑکیوں سے سمندر کے اداس پانیوں کا بین سنائی دے رہا تھا‘ بادشاہ نے چائے کا آخری گھونٹ بھرا اور اس کی سلطنت ہمیشہ ہمیشہ کےلئے ختم ہو گئی‘ وہ ان گندے‘ بدبودار اور میلے لوگوں کے ہتھے چڑھ گیا جنہیں وہ انسان نہیں سمجھتا تھا‘ وہ اس کی نظروں میں چمپینزی تھے۔

Javed Chaudhry Columns 10 May 2019, Javed Chaudhry Columns Today, Javed Chaudhry Column, Javed Chaudhry Columns Express.



نکولس دوم اور ملکہ الیگزینڈرا کی پینٹنگ شاہی گیلری کی آخری دیوار کے آخری کونے میں لگی تھی‘ وہ دونوں شاہی لباس میں تھے لیکن نہ جانے کیوں ان کے چہروں پر اداسی کے جال بچھے تھے‘ انقلابیوں نے صرف بادشاہ کی کہنہ عمر ماں کی جان بخش دی‘ماںماریہ فیوڈورووناملک نہیں چھوڑنا چاہتی تھی لیکن وہ خاندان کے قتل کے بعد لندن شفٹ ہونے پر مجبور ہوگئی‘وہ وہاں سے ڈنمارک چلی گئی اور 13 اکتوبر1928ءکو ڈنمارک میں انتقال کیا اور روسی حکومت کے حکم پر اس کی لاش روس لا کر دفن کر دی گئی یوں شاہی خاندان کے تمام افراد روسی زمین پر اکٹھے ہو گئے۔

سینٹ پیٹرز برگ کمال شہر ہے‘ فضا میں ایک طراوت‘ ایک مدہوش غنودگی ہے‘ یہ دوستوفسکی‘ پوشکن اور ترگنیف کا شہر تھا‘ ٹالسٹائی‘ میکسم گورکی اور چیخوف بھی لاتعداد مرتبہ سینٹ پیٹرز برگ آئے اور اس کی فضا میں اپنی خوشبو چھوڑ گئے‘ آپ اگر بلڈ کیتھڈرل سے نہر کے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے شہر کی مرکزی شاہراہ کی طرف آئیں تو مرکزی پل کے کنارے اپارٹمنٹس کی ایک بلڈنگ ہے‘ بلڈنگ کے نیچے ”لٹریری کیفے“ ہے‘ آپ کو پوشکن‘ دوستوفسکی‘ ٹالسٹائی اور گورکی کی اکثر تحریروں میں اس کا ذکر ملتا ہے۔

یہ کیفے 1816ءمیں بنا اور یہ ادیبوں‘ اداکاروں‘ مصوروں اور موسیقاروں کا خاص ٹھکانہ ہوتا تھا‘ پوشکن قتل ہونے سے قبل29 جنوری 1837ءکو اسی کیفے سے اٹھ کر گیا تھا اور پھر کبھی واپس نہیں آ سکا تھا‘ پوشکن کی کرسی 182سال بعد آج بھی کیفے میں موجود ہے‘ اس کی کراکری بھی قائم ہے‘ یہ کیفے آج بھی آباد ہے اور دنیا جہاں کے ادیب‘ مصور اور سیاستدان یہاں آتے ہیں اور دیر تک یہاں بیٹھتے ہیں‘ میں نے پانچ مئی کی پوری شام وہاں گزاری۔

دیواروں پر ان تمام مشاہیر کے ناموں کی تختیاں لگی تھیں جو یہاں آتے اور بیٹھتے تھے‘ کیفے کی فضا میں ادب اور فن کی خوشبو بھی تھی اور احترام کی حرارت بھی‘ سیڑھیوں کے سامنے دیوار پر پوشکن کی پینٹنگ بنی تھی‘ وہ گارڈن میں بیٹھا تھا‘ اس کے ہاتھ میں گلدستہ تھا اور وہ سیڑھیوں سے اترنے والے ہر شخص کو دیکھ کر مسکراتا تھا‘ وہ اسی گلی میں نہر کی دوسری طرف اپارٹمنٹ میں رہتا تھا‘ یہ گلی ونٹر پیلس کے قریب تھی‘ پوری گلی میں اپارٹمنٹس کی عمارتیں تھیں۔

زار کے دور میں یہاں امراءرہتے تھے‘ یہ اپنے اپارٹمنٹ اور کمرے کرائے پر بھی دے دیتے تھے‘ پوشکن کرائے پر رہتا تھا‘ کرائے کا یہ فلیٹ بھی اب عجائب گھر ہے‘ آپ ادب اور تخلیقی کام کا کمال دیکھئے اپارٹمنٹ کا مالک گمنامی میں مر گیا لیکن کرایہ دار اپارٹمنٹ کو بھی امر کر گیا‘ یہ اپارٹمنٹ اب عجائب گھر ہے اور یہ روزانہ اتنے پیسے کماتا ہے جتنے پوشکن پورے سال میں فلیٹ کے مالک کو ادا کرتا تھا۔میں سینٹ پیٹرز برگ آﺅں اور میں دوستوفسکی کے گھر کی زیارت نہ کروں یہ کیسے ممکن تھا۔

عمیرلاہور کے رہائشی ہیں‘ یہ سینٹ پیٹرز برگ میں بزنس کرتے ہیں‘ یہ مجھے ملے اور مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا‘ عمیر نے میرے لئے گائیڈ کا بندوبست کر دیا‘ لوبا روسی گائیڈ تھی‘ میں نے اس سے دوستو فسکی کا گھر تلاش کرنے کی درخواست کی‘ لوبا نے بڑی مشکل سے وہ گھر تلاش کیا اور ہم ادب کے اس عظیم انسان کے اس اپارٹمنٹ کی طرف چل پڑے جہاں اس نے زندگی کا آخری حصہ گزارا تھا‘ دوستوفسکی کوئی دیوتا‘ صوفی یا اوتار نہیں تھا لیکن ادب پرست اس کی پرستش کرتے ہیں‘ یہ اسے ادب کا بھگوان سمجھتے ہیںاور ہم اس بھگوان کے دروازے پر کھڑے تھے۔

Javed Chaudhry Columns 10 May 2019, Javed Chaudhry Columns Today, Javed Chaudhry Column, Javed Chaudhry Columns Express.



MKRdezign

رابطہ فارم

نام

ای میل *

پیغام *

تقویت یافتہ بذریعہ Blogger.
Javascript DisablePlease Enable Javascript To See All Widget